اب نہ دل میں بسا کرے کوئی
یعنی بے گھر رہا کرے کوئی
اپنے وعدے وفا کرے کوئی
اب نہ ایسی خطا کرے کوئی
وہ ملے گا تو ہم بھی مل لیں گے
ایسے کیسے ملا کرے کوئی
وہ تھے غالب انہیں تمنا تھی
"ابنِ مریم ہوا کرے کوئی"
میں نے چاہی نہیں مسیحائی
بے دوا ہی مٙرا کرے کوئی
اپنے زخموں کو خود کریدا ہے
اب مرا کیا بھلا کرے کوئی
زخم میرے رکھے نمکداں میں
یونہی میری دوا کرے کوئی
مجھ پہ الزام قتل کا دھر کر
قتل میرا، خدا ! کرے کوئی
اب نہ ارقم کسی سے کچھ کہنا
کہہ دیا بھی تو کیا کرے کوئی

0
9