ہاتھ رستے میں مجھ سے چھڑا تو لیا تیرے بن آب و دانہ رہا تو نہیں |
دل تڑپتا ہے جب بھی تری یاد میں دل کو کہتا ہوں کچھ بھی ہوا تو نہیں |
عکس تیرے مرے پاس محفوظ تھے تیرے کہنے پہ محذوف کرتا رہا |
اک تخیل ہے دھندلا مرے ذہن میں تیری صورت ہے شاید لگا تو نہیں |
وہ سکندر تھا جو ڈھونڈتا تھا مگر نسخہ ہائے بقا اس کو نئیں مل سکا |
موت آتی ہے اس جسم ناسوت کو بعد اس کے کبھی بھی فنا تو نہیں |
راستے میں رفیق سفر تھک گئے ڈگمگاتے رہے پھر بھی چلتے رہے |
راہبر بھی ملا رہزنوں سے مگر قافلہ حق کا دیکھو رکا تو نہیں |
پاک مریم پہ تہمت لگائی گئی ابن مریم کو لوگوں نے طعنے دیے |
داغ تم پر لگا حشر برپا کیا ان سے بڑھ کر کوئی پارسا تو نہیں |
عمر بھر چن کے تنکے بنایا گیا پھر وہی آشیانہ جلایا گیا |
درد محسوس تم ان کا کیسے کرو آشیانہ تمہارا جلا تو نہیں |
تختہء دار پھر سے سجائے کوئی عصر حاضر کا حلاج آئے کوئی |
عشق کو پھر طلب آگ نمرود کی اس سے کمتر کوئی ابتلا تو نہیں |
مدتوں رابطہ بھی معطل رہا زندگی جیسے چلتی تھی چلتی رہی |
تم کسی کے ہوئے میں کسی کا نہیں پھر بھی لب پر کوئی بھی گلہ تو نہیں |
معلومات