آئینہ تم بنو لوگ سنوریں گے خود آئینے کے دکھانے کا کیا فائدہ
شیخ جی اب زمانے نے کروٹ ہے لی صرف باتیں سنانے کا کیا فائدہ
دوستی کا شجر میں لگاؤں تو تم آبیاری توجہ کی کرتے نہیں
بے ثمر بھی رہے اور سایہ نہ دے تو شجر کے لگانے کا کیا فائدہ
اس کی یادوں کی رسی لٹکتی رہی کہہ رہی تھی کہ پھندا بناؤ مجھے
میں نے دل سے کہا وہ گیا تو گیا جان اپنی گنوانے کا کیا فائدہ
عشق کے حق میں میں نے دلائل دیے تب مسلسل وہ تردید کرتا رہا
اب وہ آیا ہے خود حسن کے دام میں اب فسانے سنانے کا کیا فائدہ
تیرے جانے سے میری تمنائیں سب کچھ مری اور کچھ ہو گئیں نیم جاں
جان سے ہاتھ میں نے بھی دھوئے اگر پھر بتا تیرے جانے کا کیا فائدہ
ط
تیری یادوں کے نشتر بھی چلتے رہے وہ تبسم بھی دل کو جلاتی رہی
پاس ہو کر ستاتے کوئی بات تھی یاد بن کر ستانے کا کیا فائدہ
جب سہارے کی مجھ کو ضرورت پڑی میں نے دیوار سے ہی سہارا لیا
غیر کو ہی میسر ہمیشہ رہیں تیری بانہوں کا شانے کا کیا فائدہ

0
2
21
بہت عمدہ ۔زبردست ۔ مزا آیا۔ بس املا میں ایک جھوٹی سی تحریف چاہئے ۔


تیرے جانے سے میری تمنائیں سب کچھ “مری” اور کچھ ہو گئیں نیم جاں
اس مصرعے میں مری کی املا درست کر لیں

تیرے جانے سے میری تمنائیں سب کچھ مریں اور کچھ ہو گئیں نیم جاں


بنیں ہجوم سے لشکر، چلو چلیں ہم سب
قدم، قدم سے ملا کر، چلو چلیں ہم سب
منائیں یومِ تشکر، چلو چلیں ہم سب