پیالے خون کے پیتی ہے دنیا
مسلسل پی کے پھر روتی ہے دنیا
تباہی سے مرا دم گھٹ رہا ہے
زبان حال سے کہتی ہے دنیا
یہی کچھ آخری سانسیں ہیں شاید
تھکن سے چور اب لگتی ہے دنیا
کبھی ہرگز یہاں ڈیرے نہ ڈالو
ہمیشہ اس جگہ لٹتی ہے دنیا
کبھی تو ہوش آئیں گے ٹھکانے
مگر تب تک کہاں رکتی ہے دنیا
تماشہ دیکھتے ہم رہ گئے ہیں
ہمارے سامنے مرتی ہے دنیا
سر بازار بولی لگ رہی ہے
طوائف جیسے اب بکتی ہے دنیا
ذرا تعریف اس کے منہ پہ کر لو
تو پھر جذبات میں بہتی ہے دنیا
مکافات عمل جس کو ہیں کہتے
وہ بدلہ لے رہی ہوتی ہے دنیا

0
6