اب نہیں باقی ذرا بھی اعتبارِ زندگی |
دن بہ دن بڑھتا رہا ہے میرا بارِ زندگی |
دل کے قبرستان میں مدفون کتنے راز ہیں |
ایک بھی ظاہر ہو گر ہو تار تارِ زندگی |
خانماں ہو کے بھی میں بے خانماوں میں رہا |
جب مقدر نے کیا مجھ کو شکارِ زندگی |
ہم اسی امید پر ظلم و ستم سہتے رہے |
رفتہ رفتہ چھٹ ہی جائے گا غبارِ زندگی |
تیری اک پل کی بھی فرقت میں نہیں سہہ پاوں گا |
اے مرے دل ، جانِ جاں، اے میرے یارِ زندگی |
سانپ کے رنگوں کی، نسلوں کی مجھے پہچان ہے |
آستیں میں جب سے پالے میں نے مارِ زندگی |
ایک مدت سے مرے کانوں میں جو ہی گونجتی |
موت کی آواز ہے یا ہے پکارِ زندگی |
اس جہاں کی قید سے آزاد ہونے کے لئے |
عمر بھر کرتا رہا میں انتظارِ زندگی |
معلومات