جوش باقی ہے نہ اب کوئی تمنا دل میں ہے |
یار سے ملنے گیا وہ بھی صفِ قاتل میں ہے |
اک قیامت اُس قیامت سے ہی پہلے دیکھ لی |
جو قیامت یار کے مِژگاں میں ہے اک تِل میں ہے |
تیز و تند مغرور لہروں کا بھی ہے ٹوٹتا |
اس تکبر کو مٹانے کا ہنر ساحل میں ہے |
ناز تیرے سب خوشی سے ہم اٹھائیں گے مگر |
اس تغافل سے ترے یہ دل بہت مشکل میں ہے |
تیرے ہی در پر جو آیا ہاتھ پھیلائے ہوئے |
بادشاہوں میں کہاں جو بات اس سائل میں ہے |
ہم کو یہ معلوم تھا کہ جان لیوا عشق ہے |
جان ہی اٹکی مگر میری اسی بلبل میں ہے |
سوچتا ہوں میں بھی اس کو یاد کرنا چھوڑ دوں |
دل مگر غفلت میں کب تھا جو ابھی غافل میں ہے |
وصل کا میں منتظر ہوں ، اب تلک مہجور ہوں |
زندگی میری مقید وصل کے اک پل میں ہے |
جان میری عشقِ لا حاصل میں ہی اب جائے گی |
جو مزا اس میں ہے آتا وہ کہاں حاصل میں ہے |
عشق نے ارقم کو بھی اب دار پر پہنچا دیا |
ڈر لگے اس شخص کو جو صفِ باطل میں ہے |
معلومات