تیرے بن یہ زندگی میری ہوئی ہے اب عذاب
میرے بس میں کچھ نہیں کیونکر کرے کوئی عتاب
یار سے کہنا میں تیری راہ تکتا رہ گیا
منتظر ہوں ہاتھ میں مرجھا گئے ہیں سب گلاب
عشق سے بدظن نہ ہو کوئی سو میں اس واسطے
ظاہراً ہنستا رہا دل دل میں رویا بےحساب
میری قسمت ان ستاروں سے معلق تو نہیں
اے منجم دیکھ میں گردش میں گرد آفتاب
میرے بالوں کو ترے غم نے مزین کر دیا
عمر ہے پچیس لیکن سر ستاروں کا سراب
تیری یادوں سے کلیجہ منہ کو اب آنے لگا
اب میں سمجھا صبر پر ملتا ہے کیوں اتنا ثواب
عشق جس کو ہو گیا اس کی انائیں مٹ گئی
عشق میں سب ایک جیسے کیا ففیر و کیا نواب
جب تلک ان پر نہ گزری تھی وہ سب ہنستے رہے
ان کی خاطر عشق تھا گویا فسانوں کی کتاب
یا الھی دل شکستہ لے کے ارقم آ گیا
اے خدا اب جوڑ دے، ہیں کرچی کرچی میرے خواب

0
4