ہمیں دنیا میں سرحد نے ہی پیاروں سے جدا رکھا |
یہ وہ دکھ ہے جسے یا تو خدا سمجھے یا ہم سمجھے |
وہ سرحد پار ہے لیکن وہ میرے دل میں رہتا ہے |
وہاں سے جب صبا آئے اسے بھی ہم صنم سمجھے |
اگر میری نگاہوں کے سیہ حلقوں کو وہ دیکھے |
محبت میں جدائی کا وہ غم سمجھے، ستم سمجھے |
یہ آنکھیں ایک مدت سے تو خوابوں کو بہاتی ہیں |
مگر یہ دیکھنے والے فقط ان کو تو نم سمجھے |
محبت تا دم آخر اسی سے میں نے کرنی ہے |
خدارا کوئی ناصح سے کہو اس کو عزم سمجھے |
ہمارا ایک ہونا اس جہاں میں گرچہ مشکل ہے |
ہماری روح کو دنیا مگر پھر بھی بہم سمجھے |
غزالی اس کی آنکھیں ہیں مجھے مخمور رکھتی ہیں |
انہی آنکھوں کے پیمانے کو یہ دل جام جم سمجھے |
بڑے ہی ناز نخروں سے وہ میرے روبرو آئے |
یہ دل نادان ہے ارقم تغافل کو کرم سمجھے |
معلومات