ابھی وحشت میں بھی لب پر ترا ہی نام ہے ساقی
ترے میخانے میں میرے لئے کوئی جام ہے ساقی
طنابیں خیمہء دل کی ابھی تو ٹوٹنے کو ہیں
مگر میری نظر میں اب تلک خیام ہے ساقی
مجھے قیدِ محبت سے رہا ہرگز نہیں کرنا
ہوس کا اس گلستاں میں بچھا اب دام ہے ساقی
ہوس کی ماری دنیا کو محبت کیسے سمجھاوں
ہوس کا اب تو دنیا میں محبت نام ہے ساقی
ہوس والوں کو ہر پل فکرِ ننگ و نام لاحق ہے
محبت میں کوئی کب اور کہاں بدنام ہے ساقی
ابھی بھی عشق کی راہوں میں پاوں ڈگمگاتے ہیں
محبت میں ترا یہ رند اب تک خام ہے ساقی
مقامِ عشق تو اوجِ ثریا سے بھی آگے ہے
کسی سے کیوں میں پوچھوں اس کا کیا انجام ہے ساقی
کوئی مجنون ہوتا ہے کوئی منصور ہوتا ہے
صدائے عشق ہر سو اور ہر اک گام ہے ساقی
مقامِ معرفت تو عشق کا مرہون منت ہے
کوئی اب عشق کو کیسے کہے دشنام ہے ساقی
ہمیں مقتل میں لے جاو، ہمیں زہر ہلاہل دو
ہمارے ہاتھ میں اب معرفت کا جام ہے ساقی
مجھے چلنے سے مت روکو میں ان راہوں سے واقف ہوں
یہاں آلام ہیں ساقی، یہاں الزام ہے ساقی
ترے ساقی کا آخر میں یقیں زائل نہ ہو جائے
ترا مے کش ہوا کیوں بستہء اوہام ہے ساقی
یہاں خالص شرابِ عشق کی پھر سے ضرورت ہے
یہاں الحاد کی مے سے مچا کہرام ہے ساقی
یہ بازارِ محبت ہے یہاں اخلاص چلتا ہے
یہاں بے لوث راہی آفتابِ بام ہے ساقی
ابھی عاشق کو پہلا مرحلہ درپیش آیا ہے
گریباں چاک ہے سب کچھ ہوا نیلام ہے ساقی
بجا ہیں جنتیں جنت کی رونق کو بجا کہیے
مگر دار و رسن جیسا کہاں اکرام ہے ساقی
خوشی سے دار پر جا کر یہ اپنا سر کٹا دینا
یہ عاشق کی سعادت ہے یہی انعام ہے ساقی
مجھے محبوب کے قدموں میں جا کر خاک ہونا ہے
ابھی مرا محبت میں یہی اک کام ہے ساقی
طوافِ یار کرنے کو میں سوئے دار جاتا ہوں
محبت میں کفن ہی اب مرا احرام ہے ساقی
بظاہر دیکھنے والی نگاہوں میں یہ دلکش ہے
حقیقت میں مری دنیا تو خون آشام
ندامت کے ہوں کچھ آنسو بھی اور امید باقی ہو
شکستہ دل کی خاطر عشق کا پیغام ہے، ساقی
مرا دل تیری نظروں سے ہی اب تو مطمئن ہو گا
دلِ مضطر کو ورنہ اب نہیں آرام ہے ساقی
میں نادم ہوں بہت ہی دیر سے اس در پہ آیا ہوں
مری بھی زندگی کی آخری اب شام ہے ساقی
ہمارے ظاہر و باطن پہ اس کا رنگ ظاہر ہو
یہی قرآن کہتا ہے یہی اسلام ہے ساقی
ترے فیضان سے اک دن ضیا پاشی یہ کر لے گا
ترا ارقم اگرچہ اب تلک گمنام ہے ساقی

0
16