اس گلی کی سمت میرا دھیان اگر جانے لگے
رفتہ رفتہ دل بجھے ایسے کہ مر جانے لگے
ایک بے گھر کو بہت ہی رشک آیا دیکھ کر
شام ہوتے ہی پرندے اپنے گھر جانے لگے
دل کی دنیا میں ابھی اک مقبرہ بن جائے گا
دل میں بسنے والا جب دل سے اتر جانے لگے
مدتوں کے بعد اس نے جب ہمیں آواز دی
دل نہیں چاہا تھا جانا ہم مگر جانے لگے
خاک دل کی رکھ کے آیا ہوں ہوا کی دوش پر
اس کی یادیں اس کی صورت سب بکھر جانے لگے
بھوک ہو تو خواب میں روٹی ہی آتی ہے ضیا
خواہشیں بڑھ جاتی ہیں جب پیٹ بھر جانے لگے

0
5