نہ جانے کیوں طبیعت مضمحل ہے
اجل ہمراہ ہے اور مستقل ہے
یہ کیسا شور برپا ہو گیا ہے
مری تنہائی میں یہ کیا مخل ہے
محبت میں کبھی شدت بہت تھی
ابھی تو دل کا موسم معتدل ہے
ہمیشہ سوچ مثبت تھی ہماری
اسے کیا ہوگیا اب منفعل ہے
جگر پر بس نشاں باقی رہا ہے
وگرنہ زخم میرا مندمل ہے
مسافر ہیں، یہاں سب عارضی ہے
ٹھکانہ آخرت میں مستقل ہے

0
5