Circle Image

محمد اویس قرنی

@MOwais94

محمد اویس قرنی

یہاں ہم ہیں جو ہاتھوں کی لکیروں پر الجھ بیٹھے
انھوں نے تو ستاروں پر کمندیں ڈال رکھی ہیں
محمد اویس قرنی

0
4
عمر روتے ہوئے گزری ہے مسلسل میری
مگر افسوس کہیں سے بھی دلاسہ نہ ملا
محمد اویس قرنی

0
8
یہ اداسی جو میرے چہرے پہ ججتی ہی نہیں
کیوں بھلا آ کے یہ مہمان بنی ہے میری
محمد اویس قرنی

0
3
صبح ہونے تلک ہم تو مر جائیں گے
رات کے ساتھ ہم بھی بکھر جائیں گے
چاند چھپ جائے گا بادلوں میں کہیں
ہم بھی تنہائیوں میں اتر جائیں گے
تیرے کوچے سے جب بھی گزرنا پڑا
تیری کھڑکی کو دیکھے گزر جائیں گے

0
10
جب سے چھوڑ گیا تو مجھ کو چَین بھی کوسوں دور گیا
تیرے تحفے کی دی گھڑیاں وقت بتانا چھوڑ گئیں
محمد اویس قرنی

0
7
جب سے وہ شخص مجھ سے بچھڑ کے چلا گیا
موسم بھی کچھ عجیب اداسی کا چھا گیا
آؤں گا لوٹ کر نہ مجھے وہ بتا گیا
میرے تو سر پہ یونہی قیامت بنا گیا
آنکھوں میں رہ گئی ہے فقط اس کی اک جھلک
دل پر وہ نقش اپنے بنا کر چلا گیا

0
3
جب ادھر کوئی عید ہوتی ہے
درد کی لو مزید ہوتی ہے
دکھ وہیں سے ہمیشہ ملتا ہے
جہاں سکھ کی امید ہوتی ہے
چاند نکلا تو یاد آیا مجھے
رات میں بھی کلید ہوتی ہے

13
تنہائی کی سنگت میں جو دن گزرے وہ بہتر تھے
محفل میں جو آئے تو عجب رسوا ہوئے ہیں ہم
محمد اویس قرنی

0
7
جام خوابوں کے بھر کر پلائے کوئی
سو گیا ہوں مجھے اب جگائے کوئی
شہر میں چاندنی کا ہے چرچہ مگر
میرے اندر بھی مشعل جلائے کوئی
عید اور عید کی رٹ ہے چاروں طرف
پہلے مجھ کو تو آ کے منائے کوئی

0
9
سنا ہے عید پھر دہلیز پر ہے
چلیں پھر سے اداکاری کریں گے
محمد اویس قرنی

0
8
تیرے جانے سے تو خوشبو کے یہ موسم بھی گئے
تیرے جانے سے ہی روٹھی ہیں بہاریں مجھ سے
*محمد اویس قرنی*

0
9
دنیا کی اداسی سے چھلکتا ہوا شاعر
جیسے کہ ہو حالات سے گرتا ہوا شاعر
محفل میں بھی تنہائی کا عادی ہوں ازل سے
سوچوں کے سمندر میں اترتا ہوا شاعر
لفظوں کے اجالے سے چمکنے کی ہے خواہش
دنیا کے اندھیروں میں چمکتا ہوا شاعر

0
7
ایسا کرتے ہیں ہار جاتے ہیں
پاؤں پڑ کر اسے مناتے ہیں
آج کرتے ہیں یاد اس ڈھب سے
اس کو محفل میں لے کے آتے ہیں
بھول کر سارے غم زمانے کے
آج خوشیوں کے گیت گاتے ہیں

0
7
تم نے جانا ہو تو یادوں کو سنبھالے جانا
ہم سے یہ بوجھ اٹھائے ہی نہیں جائیں گے

0
9
ہم تو نہیں ہیں اب بھی قائل پیار کے
جھوٹے ہیں تیرے سب دلائل پیار کے
دھوکے ہیں کھائے اس قدر تجھ حسن سے
اب ہوچکے سب رستے گھائل پیار کے
اب مسکراہٹ ہی نہیں ہے چہرے پر
تجھ کو بتائے تھے مسائل پیار کے

0
2
جب درد بڑھا حد سے میخانے نکل آئے
پھر میرے لبوں پر بھی غالب کی غزل آئے
الفت میں تمہاری ہم برباد تو ہو بیٹھے
کوچے میں تمہارے پھر ہم جا کے سنبھل آئے
جو خواب سجائے تھے اک بھی نہ ہوا پورا
دنیا کے تماشے سے اب ہم تو نکل آئے

0
12
دشمن کی صفوں میں بھی اک یار نظر آیا
وہ شخص ہی رستے کی دیوار نظر آیا
دنیا میں جسے ہم بھی اپنا ہی سمجھ بیٹھے
پر وقتِ ضرورت وہ غدار نظر آیا
دنیا کی حقیقت کو تسلیم کیا ہم نے
جبے میں چھپا اکثر مکار نظر آیا

0
7
زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے
کہ کچی عمر میں ہی "جون" سُنتا ہوں
محمد اویس قرنی

13
دنیا میں بھلا کیا رکھا ہے
ہر اک شئے کو فنا رکھا ہے
کبھی ہم مسجد میں فائض تھے
اب میخانہ چلا رکھا ہے
دن بھر بھی ہوش نہیں آتا
مئے میں کیا ایسا رکھا ہے؟

0
9
بتا یہ کس لیے چھیڑا تھا تو نے اس کے بندوں کو
ابابیلوں سے ہاتھی کے جو لشکر مار دیتا ہے
محمد اویس قرنی

0
5
باتوں میں اس کی کوئی بھی لذت نہیں رہی
یا پھر ہمیں مذاق کی عادت نہیں رہی
دنیا کے رنگ و ڈھنگ نے بدلا ہے اس طرح
ہنستے تھے کل مگر وہ طبیعت نہیں رہی
کرنے لگا وہ ترکِ محبت کی بات جب
دل نے کہا اب اس کی ضرورت نہیں رہی

14
آنکھوں سے اک غزل کا عنواں اٹھائیے
خوابوں کے ہر گماں کا درماں اٹھائیے
ظلمت کے سایوں سے اب نکلیں ذرا حضور
شور انقلاب کا اے نوجواں اٹھائیے
تصویر کو جلائیں خط بھی سبھی جناب
دل سے ہر ایک غم کا زنداں اٹھائیے

0
8
ہم تو دنیا سے سرِ راہ بھی غم، ہار چلے
دیکھو میخانے سے اب روٹھ کے میخوار چلے
زندگی بھر ہمیں سکھ کی کوئی صورت نہ ملی
غموں کے جام لیے ہم، سرِ بازار چلے
ہر گھڑی گردشِ ایام سے بے چین رہے
دھوپ سہتے ہوئے سائے کے طلب گار چلے

0
9
یہ جب تک ہجر کا موسم رہے گا
یہی رونا یہی ماتم رہے گا
تری یادوں کے زخموں پر سدا ہی
امیدِ وصل کا مرہم رہے گا
محبت میں جفا سہتے رہیں گے
مگر یہ دل ترا محرم رہے گا

0
4
کاتب کے ہاتھ میں خنجر ہے
ہر فرد سخن کا سنجر ہے
لے آئیں کہاں سے غالب کو
غزلوں کی زمیں بس بنجر ہے
محمد اویس قرنی

0
4
نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
دل عشقِ محمد میں ہے سرشار ہمارا
کونین کا سرور ہے وہ سردار ہمارا
وہ ختمِ رسل باعثِ تخلیقِ جہاں ہیں
آباد انہی سے ہے یہ گلزار ہمارا
ہر سمت ہے انوارِ رسالت کا اجالا

1
17
یا رب شبِ فراق کی کوئی سحر تو ہو
اس کے وصال کی ہمیں کوئی خبر تو ہو
دائم رہے نہ یہ غمِ ہجراں کا عارضہ
مانگی ہوئی دعاوں کا اتنا اثر تو ہو
میری یہی تمنا ہے مل جائے وہ مجھے
اس زندگی کے پیڑ پہ اتنا ثمر تو ہو

17
غم و الم افسردگی حزن و ملال
ان کے سوا تو زندگی میں کچھ نہیں
محمد اویس قرنی

10
آپ کو بس جناب دیکھیں گے
چپ رہ کے، اضطراب دیکھیں گے
پہلے تم سے ہی عشق کرلیں گے
پھر جو آیا ، عذاب دیکھیں گے
تم سے اظہارِ عشق کرکے ہم
پھر تمہارا جواب دیکھیں گے

0
7
مجھ کو تیری دید ہو جائے بچی ہے اک یہ آس
مجھ سے ملنے آ، میں تجھ سے کرتا ہوں یہ التماس
تو گیا تو ہر طرف بکھری رہی یہ زندگی
تیرے جانے پر یہ دل ہردم ہی رہتا ہے اداس
تجھ کو پا لوں یا فنا ہو جاؤں تیری چاہ میں
زندگی کی ہر گھڑی گزرے فقط تیرے ہی پاس

0
11
یونہی آ کر مرے دل کو تو نے ویران کیا
بتا تو اب کیا تیرا میں نے نقصان کیا
یادیں وابستہ ہیں تیری کہ رلاتی ہیں مجھے
کس لئے تم نے مجھے اتنا پریشان کیا
میں ترے عشق میں ،خود ہوش بھلا بیٹھا ہوں
میری حالت نے کبھی تم کو بھی حیران کیا

0
9
پہلے تو تیری دید کو ترسے جاتے ہیں
پھر آنکھ ترے چہرے کی تاب نہیں لاتی

0
11
اک دوجے پر جاں وارنے کو ہیں ہم
پھر بھی مگر مزاج نہیں ملتے

0
7
عمر آدھی میری گزر چکی
میں سنجیدہ نہ ہوا پھر بھی

0
10
پہلے سارے نشاں بدلتے ہیں
پھر مکیں کچھ مکاں بدلتے ہیں
رنگ بدلے ہیں تو نے جتنے دوست
اتنے گرگٹ کہاں بدلتے ہیں
یہاں ممکن نہیں گزارا اب
چھوڑ دو یہ جہاں بدلتے ہیں

0
8
تیرے بچھڑ جانے کی خبر جب سے ملی
میری آنکھوں میں ساون امڈ آیا ہے

0
11
وہ نومبر کی سرد سی راتیں
کیسے بھولوں تری ملاقاتیں
وہ ترا چاند کی طرف تکنا
نور کی چاند سے مناجاتیں
کتنے پر عزم تھے ترے وعدے
کتنی پرجوش تھیں تری باتیں

0
34
"دیکھا کروں میں تجھ کو یہی چاہتا ہے دل"
تیرے بغیر میرا بھی کتنا لگا ہے دل
تیری جدائی کو بھی کئی سال ہوچکے
ہر پل ترے وصال کو ہی سوچتا ہے دل
کیسے بتاؤں میں غمِ ہجراں زبان سے
تیری کمی میں میرا یہ کتنا دکھا ہے دل

0
16
یہاں رہبر کے ہاتھوں سے لٹا ہے کارواں اپنا
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
اسے تو دل سے چاہا تھا اسے اپنا سمجھتے تھے
مگر مطلب کی دنیا میں کوئی ہے ہی کہاں اپنا
تجھے پانے کی کوشش میں بھی بھٹکے در بدر تھے ہم
اسی کوشش میں پھر ہم نے گنوایا ہے جہاں اپنا

10
نہ گھبراؤ میرے یارو تمہارے ہیں سہارے ہم
"چلو تم رفتہ رفتہ آتے ہیں پیچھے تمہارے ہم"
کہ تم کو جو بھی کرنا ہے ابھی چل کے پہل کر دو
نتائج کچھ بھی ہوں یارو اٹھالیں گے خسارے ہم
بھنور میں پھنس گئے گر تو وہاں بھی حوصلہ رکھنا
یہاں بھی ڈوب کر لائیں گے تجھ کو پھر کنارے ہم

0
13
احباب مرے بھی ہیں اغیار کی مانند
چلتی ہے زبان ان کی تلوار کی مانند
وہ ہیں صدیق و امیں اور صاحبِ گفتار
ہم کاذب و خائن کے کردار کی مانند
لاگو نہیں ان پر تو گفتار کی شقیں
ہم مطبق قانون سے بے کار کی مانند

0
13
اک سانپ کو ہی دودھ پلانے میں لگے ہیں
یک طرفہ تعلق کو نبھانے میں لگے ہیں
ہم ہیں کہ اسی پر یونہی جاں وار رہے ہیں
اک وہ ہیں کہ پیچھا ہی چھڑانے میں لگے ہیں
یہ حال کہ پروا بھی نہیں اُن کو ہماری
اک ہم ہیں کہ خوابوں کو سجانے میں لگے ہیں

0
19
غمِ فراق میں سب کچھ گنوائے بیٹھے ہیں
"حواس و ہوش جنوں میں اڑائے بیٹھے ہیں"
دلِ تباہ کو راحت نہ مل سکی کہیں بھی
سکوں کے نام کو بھی اب بھلائے بیٹھے ہیں
خیالِ یار کو ہم نے بھلایا ہی کب ہے
اسی خیال کو دل میں بسائے بیٹھے ہیں

0
8
دوست میرا بھی مجھ کو آنکھیں دکھا رہا ہے
یہی وہ دکھ ہے جو مجھ کو اندر سے کھا رہا ہے
قدم قدم پر مصیبتوں سے تو لڑ رہا ہوں
پہ غم محبت کا مجھ کو پاگل بنا رہا ہے
اٹھا کے جس کو بٹھایا دل کے حسیں محل میں
وہ شخص ہر پل مجھے نظر سے گرا رہا ہے

0
7
کوئی بہار آئے تو رونق ادھر لگے
اس بستی میں کوئی بھی تو اچھا شجر لگے
چکر ہیں اتنے کاٹے اسی کی تلاش میں
مجھ کو تو کوئے جاناں بھی اپنا ہی گھر لگے
میں نے تو ترک کی تھی محبت کی جستجو
اب تو یہ راستہ بھی بڑا پر خطر لگے

0
5
اس کی تصویر دیکھ رکھی ہے
ہم نے اک ہیر دیکھ رکھی ہے
عشق کرنا نہیں ہے مشکل پر
اس کی تاثیر دیکھ رکھی ہے
پیار کے خواب مت دکھا ہم کو
اس کی تعبیر دیکھ رکھی ہے

0
6
اُٹھائے روح جسموں میں ،کہ ہم بےکار بیٹھے ہیں
"تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں
تیرا کہنا کہ آئیں ہم ،منا کر تجھ کو لے جائیں
مگر ہم بھی ترے در پر ،ہزاروں بار بیٹھے ہیں
ادب سے آؤ محفل میں،نگاہیں بھی جھکا لو اب
وہ دیکھو حسن والوں کے، یہاں سردار بیٹھے ہیں

0
13
یہی محفل ذرا دیکھو، جہاں اغیار بیٹھے ہیں
یہاں پر ہی مرے اپنے کوئی دو چار بیٹھے ہیں
نہ ڈھونڈو تم مرے دشمن، یہیں پر ہی ملیں گے وہ
یہاں کچھ ساتھ ہیں میرے، تو کچھ اس پار بیٹھے ہیں
ہمیں بھی تو فراغت میں یہاں لوٹا ہے اپنوں نے
کہ اب غیروں سے لٹنے کو بھی ہم تیار بیٹھے ہیں

0
10
رات کی بانہیں نیلی ہیں
صبح کی آنکھیں پیلی ہیں
کس کو رو کر آئی ہے
تیری آنکھیں گیلی ہیں
کڑوی کڑوی سب باتیں
جام سمجھ کر پی لی ہیں

0
5
کتنا بدنام ہوں کون جانے مجھے
میں ترے نام ہوں کون جانے مجھے
زندگی بھر تمھاری تمنا رہی
کیسا ناکام ہوں کون جانے مجھے
اے خدا وند، اے خالقِ کائنات
بندۂ عام ہوں کون جانے مجھے

0
7
اس نے آنکھوں سے تو اشارہ کیا
ہم نے دیکھا، مگر کنارہ کیا
وہ پلٹ کر نہ آیا پھر واپس
ہم نے بھی صبر سے گزارا کیا
آپ پر تکیہ کر لیا اور پھر
ہم نے اپنا بڑا خسارہ کیا

0
26
تو گیا تو ہمیں تنہائی کا احساس ہوا
زخم کو زخم کی گہرائی کا احساس ہوا
ذہن مفلوج ہے اور یاد کوئی چیز نہیں
تیری ہجرت سے یوں پسپائی کا احساس ہوا
ہے تری یاد کو سینے میں سمایا جب سے
ہم کو بھی سینے کی چوڑائی کا احساس ہوا

0
11
یہاں کوئی کنارہ ہے؟
کوئی اپنا سہارا ہے؟
اندھیرا چھا گیا ہے یاں
ادھر کوئی ستارہ ہے؟
اسی نے حال پوچھا ہے؟
اسے بو لو گزارا ہے

7
ذوق و غالب بھی نہیں
فیض و جالب بھی نہیں
اب قلم میں وہ شرر
یا مطالب بھی نہیں
وہ سخن جس کا یہاں
کوئی طالب بھی نہیں

8
تو بھی بے پردہ ہمارے پاس آئے
ہم بھی پھر نظریں جھکائیں آداب

0
4
نعت
میری بخشش کا ہیں سامان مدینے والے
آپ پر جاؤں میں قربان مدینے والے
آپ نے پائی ہے کیا شان مدینے والے
دونوں عالم کے ہیں سلطان مدینے والے
روز دیدار جنہیں روضۂ اطہر کا نصیب

0
6
تم سے بچھڑوں گا تو پھر جا کے سنبھل جاؤں گا
غم کو سینے سے لگا کر میں نکل جاؤں گا
کربِ ہجراں میں یہ دل بھی کہ سلگتا ہی رہے
ایک دیدِ رخِ جاناں سے اچھل جاؤں گا
مجھ کو تعبیر بتائی ہے معبر گو نے
اپنے اندر کی میں شعلے سے ہی جل جاؤں گا

0
6