یہ سوچ کے دل میرا پریشان ہوا ہے
اس ہاتھ سے جب بھی ہوا نقصان ہوا ہے
دل ٹوٹے ہوئے رشتوں کا مرکز ہے تبھی تو
یہ وقت کے ہاتھوں سے پشیمان ہوا ہے
ہر بار اسی موڑ پہ چھوڑا ہے کسی نے
ہر بار یہی خواب ہی ویران ہوا ہے
اک عمر کا سرمایہ لٹا بیٹھا ہوں جس پر
وہ شخص ہی کیوں حال سے انجان ہوا ہے
اس کربِ مسلسل نے بگاڑا ہے کچھ ایسے
ہر شخص مجھے دیکھ کے حیران ہوا ہے
محمد اویس قرنی

0
2