زخم ہم دل پہ کھاتے رہتے ہیں
اور پھر مسکراتے رہتے ہیں
کب کوئی درد بانٹتا ہے یاں
لوگ تو بس ستاتے رہتے ہیں
خود ہی پتھر اٹھاتے ہیں پہلے
پھر تماشہ بناتے رہتے ہیں
اب پریشان ہونا کیسا ہے
یہ برے دن تو آتے رہتے ہیں
کیوں وہ سُورج بدکنے لگتا ہے
ہم دیے ہی جلاتے رہتے ہیں
یاد کی ریت پر ہم اکثر دوست
تیرے نقشے بناتے رہتے ہیں
کون سُنتا ہے شاعری قرنی
ہم تو لکھ کے چھپاتے رہتے ہیں
محمد اویس قرنی

0
3