جب درد بڑھا حد سے میخانے نکل آئے
پھر میرے لبوں پر بھی غالب کی غزل آئے
الفت میں تمہاری ہم برباد تو ہو بیٹھے
کوچے میں تمہارے پھر ہم جا کے سنبھل آئے
جو خواب سجائے تھے اک بھی نہ ہوا پورا
دنیا کے تماشے سے اب ہم تو نکل آئے
ہر سانس پہ پابندی ہر گام پہ بندش ہے
دنیا کی فضا جیسے زنجیر میں ڈھل آئے
تجھ چاند سے ملنے کو ، گو خالی ہی لوٹے ہیں
پر تیرے نمک کو ہم ان زخموں پہ مٙل آئے
قسمت یہ ہماری تھی کرتے ہی کیا قرنی
جو لوگ بھی اپنے تھے وہ زہر اگل آئے

0
12