| اک سانپ کو ہی دودھ پلانے میں لگے ہیں |
| یک طرفہ تعلق کو نبھانے میں لگے ہیں |
| ہم ہیں کہ اسی پر یونہی جاں وار رہے ہیں |
| اک وہ ہیں کہ پیچھا ہی چھڑانے میں لگے ہیں |
| یہ حال کہ پروا بھی نہیں اُن کو ہماری |
| اک ہم ہیں کہ خوابوں کو سجانے میں لگے ہیں |
| ہے آج بھی امید لگائیں گے وہ مرہم |
| جو زخم نئے روز لگانے میں لگے ہیں |
| کیا حال سنائیں دل ِبےچین کا اُن کو |
| جو نظریں مسلسل ہی چرانے میں لگے ہیں |
| محمد اویس قرنی |
معلومات