ہم تو دنیا سے سرِ راہ بھی غم، ہار چلے |
دیکھو میخانے سے اب روٹھ کے میخوار چلے |
زندگی بھر ہمیں سکھ کی کوئی صورت نہ ملی |
غموں کے جام لیے ہم، سرِ بازار چلے |
ہر گھڑی گردشِ ایام سے بے چین رہے |
دھوپ سہتے ہوئے سائے کے طلب گار چلے |
لب پہ آئے نہ کبھی حرفِ شکایت کوئی |
غم چھپاتے ہوئے دل میں یہ گنہگار چلے |
جن کو آباد کیا دل میں محبت کر کے |
وہی بے مہر ہمیں چھوڑ کے سو بار چلے |
ہم تو جن کو تھے طبیب اپنا سمجھ کے بیٹھے |
زخم ہم کو وہ نئے دے کے مددگار چلے |
اب یہ احساس ہوا عشق خطا تھی قرنی |
ترک کر کے اسے ہم بھی تو سوئے دار چلے |
محمد اویس قرنی |
معلومات