آنکھوں سے اک غزل کا عنواں اٹھائیے |
خوابوں کے ہر گماں کا درماں اٹھائیے |
ظلمت کے سایوں سے اب نکلیں ذرا حضور |
شور انقلاب کا اے نوجواں اٹھائیے |
تصویر کو جلائیں خط بھی سبھی جناب |
دل سے ہر ایک غم کا زنداں اٹھائیے |
صدیوں کے زخم جو بھی باقی ہیں دھرتی پر |
ان کی بھی آہ، درد و ارماں اٹھائیے |
رفتار اس زماں کی اب تھم نہیں رہی |
اوقاتِ وقت کا اب داماں اٹھائیے |
محمد اویس قرنی |
معلومات