Circle Image

محمد اویس ماہی

@Awais33100

ادب خوشبو ہے۔

ہزار درد تھے پر ایک درد باری تھا
کئی ہزار سے اک وار تیرا کا ری تھا
مری تو لاش بھی اس کو دکھائی ہی نہ گئی
دکھائی نا گئی میری تو لاش بھی اس کو
کہ خو ف اتنا مرا دشمنوں پہ طاری تھا
سراغ پھر بھی نہ ملا کوئی بھی منزل کا

0
2
اندھیرے میں بہت اجالے ہوتے ہیں
جو ہم یہ چائے پینے والے ہوتے ہیں
پرانے دوست بھی نرالے ہوتے ہیں
جو ہم یہ چائے پینے والے ہوتے ہیں
بیان میں کئی حوالے ہوتے ہیں
جو ہم یہ چائے پینے والے ہوتے ہیں

0
3
سخن کے سب مرا تب میں علا ہے نعتِ نبی
فنا نہیں ہے جسے وہ بقا ہے نعتِ نبی
نہیں ہے جس میں کچھ آورد با وجودِ آورد
خدا کی خاص یہ ایسی عطا ہے نعتِ نبی
سخن شناس سے پوچھے گے قبر میں یہ نکیر
طلب ہے بخششوں کی تو ، بتا ہے نعتِ نبی ؟

0
12
تم سوئے رہو امتِ مسلم کے جوانو
افلاس سے ادبار سے ملت کے بے گانو
کشمیر میں اقصیٰ میں ہیں نوحہ کناں سب
تم سوئے رہو سوئے ہی ذلت کے نشانو
تم عیش طلب عیش ہی کرتے رہو بس اور
اقصیٰ میں پڑی لاشوں کا کچھ حال نہ جانو

0
8
عجیب خوف ہے دل میں کہ کل کیا ہوگا
جو بیج بویا وفا کا تو پھل کیا ہوگا
ریاض سے ہی ہو جاتا حل وہ مسئلہ پر
سوال ہی جو غلط تھا تو حل کیا ہوگا
نہ پو چھیے مری آنکھوں کی پیلگی کی وجہ
بسے ہوں آپ جہاں واں کجل کیا ہوگا

0
12
یہ دھوپ اور ہوا کا امتزاج، اچھا لگتا ہے
خزاں رسیدہ سا اس کا مزاج ، اچھا لگتا ہے
کرشمہ سازئِ دوراں نہیں یہ تو پھر اور کیا ہے
برا جو لگتا تھا کل تک ، وہ آج ، اچھا لگتا ہے
بہت ملے ہیں مجھ کو خوش مزاج چہرے بھی لیکن
میں کیا کروں مجھے وہ بد مزاج اچھا لگتا ہے

0
10
محبتوں کا نصاب لکھوں
میں اپنے غم پر کتاب لکھوں
اگرچہ مجھ کو مٹا رہا ہے
میں تجھ کو پھر بے حساب لکھوں
وہ باتیں کی تھیں جو تو نے ساری
میں ان کا لبِّ لباب لکھوں

0
7
چین ملتا ہی نہیں ہے مجھے ویرانے میں
جی مگر مانا نہیں لوٹ کے گھر جانے میں
شاید اس جوشِ جنوں کا ہو وہاں ہی کوئی حل
اٹھ ذرا چلتے ہیں پھر یار کے میخانے میں
بادِ عشرت نہ کبھی آئی دروں خانۂ دل
ایک ہی کھڑکی رکھی تھی میں نے غم خانے میں

0
10
شکستہ دل ہوں پر شکستہ پا نہیں
اے دوست تجھ سے اب بھی میں خفا نہیں
نہ رکھ تمنا مجھ سے تارے لانے کی
کہ میں تو انساں ہوں کوئی خدا نہیں
میں گرد میں چھپا ہوا چراغ ہوں
کہ بس مٹا ہوا ہوں پر بھجا نہیں

0
8
طاق راتوں میں بھی ہم تیرے ہی مشتاق رہے
یعنی ہم خاک نشیں فخرِ خدا پاک رہے
رنج و غم کیوں نہ ہوں رخصت مرے دل سے اب بھی
دل مرا محوِ غمِ صاحبِ لولاک رہے
ان کی چوکھٹ پہ جو اک بار پھلائے دامن
تا عمر اس کو نہ پھر حاجتِ املاک رہے

0
5
48
اب ہمیں دیکھ کے روئے گا کون
دل ہمارے لیے کھوئے گا کون
شب ترے خوابوں میں بس گزر جائے
تجھ کو یوں یاد رکھ سوئے گا کون
ہو ثمر دار بے برگ شاخیں
بیج ایسا طرب بوئے گا کون

0
16
رات بھی دن ہوا لوگوں کا
اپنا دن بھی ہوا رات اب
سو گیا بخت تیرا ما ہی
چل نکل تو بھی اور سو جا اب

0
10
مکان کچے بھی سہانے ہوتے ہیں
وابستہ ان سے بھی فسانے ہوتے ہیں
نئے تھے جو کبھی پرانے ہوتے ہیں
یہ دن بھی عشق نے دکھانے ہوتے ہیں
کہاں مجھے یہ شعر کہنا آتے ہیں
یہ تیری یاد کے بہانے ہوتے ہیں

0
10
دل مرا ہے مضطرب اب بلا لیجے حضور
ہو گئی تاریک شب اب بلا لیجے حضور
ہے نہیں کچھ مال پر بے سبب مجھ کو بلانا
آپ پر مشکل ہے کب اب بلا لیجے حضور
اپنی تو بگڑی ہے چھب حال بھی بے حال ہے
آپ کی دیکھوں میں چھب اب بلا لیجے حضور

0
9
ہم فقیروں کے پاس کچھ نہیں
آسرا کوئی آس کچھ نہیں
بیشتر کھا جاتا ہوں دھوکہ میں
نرم خو ہوں بس خاص کچھ نہیں
یہ ہیں پھول علم و ہنر کے وہ
جن کے بیچ بو باس کچھ نہیں

0
15
سجنا سنورنا چھوڑ دیا جائے
غم کا لبادہ اوڑھ لیا جائے
وہ تو ہے ڈھلتا ہوا سورج
اس کو کیسے موڑ لیا جائے
وہ ہے بچھڑنے والا اب پھر
اپنا ہی رخ موڑ لیا جائے

0
13
بادلوں کے بیچ سے یوں جھانکتا ہے آفتاب
جیسے اپنے گھر کو ہی دیکھے کوئی خانہ خراب
اے گلِ خندہ دہن تجھ کو تو ہوں میں نا گزیر
پھول پر بے آفتاب آتا نہیں کامل شباب
جو بھی آ کر کرتا ہے مجھ سے محبت کا سوال
اس کو میں یہ کہتا ہوں تو ہی ہے بس میرا جواب

0
12
جس کے سر پر سج گیا ہے نقشِ پائے مصطفیٰ
اس کو اور کیا چاہیے ہے از خدائے مصطفیٰ
آسماں سایہ فگن جو آتا ہے تم کو نظر
اس پہ بھی سایہ فگن تو ہے ردائے مصطفیٰ
ریت کے ذروں سے آئینہ بنا جو تاب ناک
بالیقیں ان پر پڑی ضوئے ضیائے مصطفیٰ

0
7
سورج کی ضیاء سے بھی ستاروں کی جلا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری ادا سے
پروا نہیں چھن جائے زباں میری بھلا سے
توفیقِ سخن ایسی ملی تیری عطا سے
ملتی ہے شفا ان کو ترے نام سے اکثر
جن کو نہیں ملتی ہے شفا دارو دوا سے

0
8
یہ کیسی ہے جدت آئی
جذبوں میں ہے حدت آئی
نفرت کینہ اور عداوت
ان میں بھی ہے شدت آئی
یہ کیسی ہے جدت آئی
جدت یہ تھی روٹی ہوتی

0
10
کفن پہ میرے لکھا ہوا ہے
کہ اپنوں کو دم دیا ہوا ہے
یہ کون پھیلا رہا ہے دہشت
نقاب منھ پر کیا ہوا ہے
کہا یہ قاضی نے ظلم کر کے
مصالحت نے لیا ہوا ہے

0
10
کفن پہ میرے لکھا ہوا ہے
کہ اپنوں کو دم دیا ہوا ہے
یہ کون پھیلا رہا ہے دہشت
نقاب منھ پر کیا ہوا ہے
کہا یہ قاضی نے ظلم کر کے
مصالحت نے لیا ہوا ہے

11
ابنِ آدم ہوں مجھے ورثے میں مل جائے گی جنت
ہے خدا میری دعا مجھ کو ملے تیری ہی قربت

0
7
مختلف شکلوں کا عادی نہیں ہوں
میں تو عاشق ہوں فسادی نہیں ہوں
جا بجا محفلوں میں جا جا کے میں
تیرے ظلموں کا منادی نہیں ہوں

0
9
جو روٹھ گئے ان کو منانے سے کیا ہوگا
تم ہی کہو اب احساں جتانے سے کیا ہوگا
ہوتی ہے درختوں کی رونق ہرے پتوں سے
جو پیلے ہیں ان کے گر جانے سے کیا ہوگا
اس کو تو بچھڑنااب بچھڑے کہ کل بچھڑے
آنکھیں یوں کبوتر کی طرح کرنے سے کیا ہوگا

0
6
رونا بھی آتا نہیں ہے اور ہنسا جاتا نہیں
جا مریضِ عشق تیرا اب کوئی کھاتہ نہیں
ہوں میں زندہ ہے مگر یہ کیسی میری زندگی
سانس تو چلتا ہے لیکن سانس بھی آتا نہیں

0
5
اس طرح تو نے تعلق کو نبھایا ہوتا
بے وفائی کا سبب کچھ تو بتایا ہوتا
اب ہوا کم زر و کم ظرف، بے رو سا میں کاش
اس کی دنیامیں کوئی اور نہ آیا ہوتا
اپنے تو باغ میں تھا فصل خزاں سے ہی اجاڑ
کاش ویرانے میں طوفان نہ آیا ہوتا

0
9
ترا معیار پا نہیں سکتا
دیکھ کر زہر کھا نہیں سکتا
اس لیے خود سے عشق میں نے کیا
خود سے دھوکہ تو کھا نہیں سکتا
دور جا مجھ سے میں ہوں شادی شدہ
اس سے ناطہ چھپا نہیں سکتا

0
7
عشق ، عاشق ، عاشقی
عبد، عابد ، عابدی
حکم ،حاکم ،حاکمی
عجز ، عاجز ، عاجزی
قہر، قاہر، قاہری
صبر، صابر ، صابری

0
10
موسم پرت کے آئے مگر تم نہ مل سکے
سب تو جلے چراغ مگر دل نہ جل سکے
مجھ کو نہ چھوڑ جائے کہیں اس کی یاد اب
خطرے ٹلے ہیں سب ہی مگر یہ نہ ٹل سکے
آنگن میں اس کے پیڑ سناتے ہیں اپنا غم
آئیں بہاریں لاکھ مگر ہم نہ پھل سکے

0
7
قبلہ دنیا نے اسی سمت بنایا ہوگا
جس طرف یار نے گیسو کو جھکایا ہوگا
جس نے بے پردہ ترا رخ کبھی دیکھا ہوگا
تا عمر اس کو کبھی ہوش نہ آیا ہوگا
چاند اک ہو کے نہ تاروں کو کبھی سونے دے
کتنے تاروں کو مرے مہ نے جگایا ہوگا

0
7
اب نہیں ہوتی حیرت کسی چیز پر
اب تو حیرت کا مرکز مری ذات ہے
جام و بادہ بھی ہے وہ میسر بھی ہے
دل ہے پھر مضطرب تو کوئی بات ہے
پھولوں نے مجھ کو ہنستے ہوئے یہ کہا
اب کرو گریہ تم فصلِ برسات ہے

0
7
حق سے ملنے گئے با سراپا گئے
سیر کرنے گئے سیر کروا گئے
انبیاء کو پڑھا کے نماز اقصیٰ میں
ان کے سجدوں کو معراج دلوا گئے
مشتری زہرہ مریخ، تارے رکے
اور کشش کے تھے سارے ہی دھارے رکے

0
10
موسم کی مثل مجھ پہ تو آئے ہیں مصائب
خارج نہ ہوا پہلا کہ اک اور ملا ہے
قسمت میں تھا جو کچھ بھی ملا ہے وہ تو ہم کو
تم جو نہ تھے تقدیر میں کیا تجھ سے گلہ ہے
ہم کو بھی محبت کا کوئی شوق نہیں تھا
یہ شوقِ محبت بھی ترے رخ سے ملا ہے

0
4
ہم سے بھی عشق کوئی ماہی تو کرسکتا ہے
حسن پر اپنے کوئی ماہی تو مر سکتا ہے
جو نہیں ماہ جبیں ہم تو ہوا کیا ماہی
خلق اپنے سے دلِ ماہی جکڑ سکتا ہے
ہے بڑا پاس انھیں وعدے کا پر اے ماہی
نہ کیا وعدہ کوئی ماہی مکر سکتا ہے

0
9
نہ چھوڑا ہم نے اس کو جو کلیجے کو جلاتی ہے
چھوڑیں ہم کیوں اس کو جو ہمیں چائے پلاتی ہے

0
3
اے حسینانِ مُصِر مجھ کو نہ تم بہکاؤ
میں قلندر ہوں نہ یوسف ہوں نہ زاہد عابد

0
6
دلیلِ ذوقِ طبع کو مرے یہ بات کافی ہے
کہ تیرے بعد نظروں کو مری کوئی نہ رخ بھایا

0
7
وہ اور تھے جن کی پسلی سے نکلی حوّا
میری تو حوّا نے میری پسلی نکال دی

0
6
تر رکھتے ہیں اس لیے آنکھوں کو
لگ نہ جائے پھر آشوب کہیں

0
6
جس نے زبانِ منبعِ کوثر کو چوسا ہو
اسکو بھلا ہو حاجتِ آبِ فرات کیا

0
6
خاموشی ہے تنہائی ہے اور ہرجائی
یہ تین ملے اور غزل بن آئی
لرزیدہ سی تھی ڈوری مرے سانسوں کی
آیا جو خیال ان کا تو ہچکن آئی
قبل اس سے کوئی خواہشِ دوں وا ہوتی
تصویرِ صنم خیال سے دھندلائی

0
10
جب سے تو نے مرا لوگوں کو بتا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
شادی اک غم ہے مگر کیوں نہ کریں ہم شادی
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
اس کی بیگم نے اسے کان پھڑائیں ہوں گے
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے

0
15
پوچھتے ہو کہ میں چپ کیوں ہو
تیری باتوں سے اوقاتوں سے
چپ ہوں بس چپ
منصف کے انصاف سے
حاکم کے معیار سے
جاھل کے انکار سے

0
27
منبعِ فہم و فراست حیدرِ کرّار ہیں
کشتئ بحرِ حقیقت حیدرِ کرّار ہیں
مصطفیٰ نے سونپ دیں ہیں سب امانات آپ کو
قاسمِ فیضِ نبوت حیدرِ کرّار ہیں
کیا بتاؤں میں عبادت آپ کی کا حال کچھ
ذکر جن کا ہے عبادت حیدرِ کرّار ہیں

0
22
دن برے ہیں بھلے بھی آئیں گے
وہ چلے ہیں چلے ہی آئیں گے
جو پرندے سویرے ہی نکلیں
اب تو وہ دن ڈھلے ہی آئیں گے
آنکھ میں دھول ڈال جو نکلے
وہ دو آنکھیں ملے ہی آئیں گے

13
یہ سال بھی اس شخص کے جیسا نکلا
وہ شخص جو آیا، رکا، اور چل نکلا

0
11
کسے پتا تھا کہ ہو گے نہ تم اس گلستاں میں
نہ خبر تھی کریں گے نو حہ شبِ سالِ نو میں

0
19
آسماں پر رنگ و بو کا اک عجب احساس ہے
لگتا ہے جوّ کو بھی تیرے آنے کا ہی پاس ہے
کیوں زمیں خندیدہ سی ہے آسماں ترسیدہ سا
ان کو بھی تو آمدِ محبوب رب کی آس ہے
نہرِ نخلِ باغ جنت کی نہیں ہے آرزو
تیرے ہاتھوں جامِ کوثر پینے کی بس پیاس ہے

6
63
چرخ گرتا نہیں جو دیکھ کے میرے عصیاں
مجھ کو اس سے بھی تو کچھ تو نے چھپا رکھا ہے
ترےصدقے کہ ملائک کو دکھا کر مرے عیب
ان کے سر کو بھی مر ے آگے جھکا رکھا ہے
دائیں والا ہے نا واقف مری تقصیروں سے
کاتبِ اثم کی نظروں میں بھلا رکھا ہے

41
شعر کہنا مرا شعار نہیں
یوں سمجھنا نہ ہم کو پیار نہیں
تیری صورت پہ مخملی پردہ
ایسے پردے کا اعتبار نہیں
تیری تصویر دیکھتے رہنا
ہم کو اور کوئی کاروبار نہیں

25
مرے حبیب کو دائم زکام رہتا ہے
خیال ان کا جو دل میں ہی عام رہتا ہے
مرے سجود پہ ہے بت پرستی کا فتویٰ
دمِ سجود مرے دل میں رام رہتا ہے
حبیب میرا ہے اتنا فصیح مت پوچھو
خموش رہ کی بھی وہ ہم کلام رہتا ہے

20
ہمیں تو کسی نے بلایا نہیں ہے
کسی کو تو ہم نے ستایا نہیں ہے
مرے دل کا غم تو نے جب سے نہ پوچھا
کسی کے بھی پوچھے بتایا نہیں ہے
مرے دل میں دلبر جو آ کر تو دیکھو
یہ وہ گھر ہے جس کا کرایہ نہیں ہے

26