ترا معیار پا نہیں سکتا |
دیکھ کر زہر کھا نہیں سکتا |
اس لیے خود سے عشق میں نے کیا |
خود سے دھوکہ تو کھا نہیں سکتا |
دور جا مجھ سے میں ہوں شادی شدہ |
اس سے ناطہ چھپا نہیں سکتا |
سرخرو میں ہوا ہوں ہر جا ،پر |
لیک تجھ کو ہرا نہیں سکتا |
ہے سفینہ یہ زیست تو دریا |
کشتی تجھ بن چلا نہیں سکتا |
تو بچھڑ جائے گا ندامت سے |
میں تجھے آزما نہیں سکتا |
ہے مراسم کی تیرے مجھ کو خبر |
پیٹ اپنا دکھا نہیں سکتا |
معلومات