ترا معیار پا نہیں سکتا
دیکھ کر زہر کھا نہیں سکتا
اس لیے خود سے عشق میں نے کیا
خود سے دھوکہ تو کھا نہیں سکتا
دور جا مجھ سے میں ہوں شادی شدہ
اس سے ناطہ چھپا نہیں سکتا
سرخرو میں ہوا ہوں ہر جا ،پر
لیک تجھ کو ہرا نہیں سکتا
ہے سفینہ یہ زیست تو دریا
کشتی تجھ بن چلا نہیں سکتا
تو بچھڑ جائے گا ندامت سے
میں تجھے آزما نہیں سکتا
ہے مراسم کی تیرے مجھ کو خبر
پیٹ اپنا دکھا نہیں سکتا

0
7