جس کے سر پر سج گیا ہے نقشِ پائے مصطفیٰ
اس کو اور کیا چاہیے ہے از خدائے مصطفیٰ
آسماں سایہ فگن جو آتا ہے تم کو نظر
اس پہ بھی سایہ فگن تو ہے ردائے مصطفیٰ
ریت کے ذروں سے آئینہ بنا جو تاب ناک
بالیقیں ان پر پڑی ضوئے ضیائے مصطفیٰ
مریم و حوا و حضرت فاطمہ و آ سیہ
سب کو ہے وافر ملا فیضِ حیائے مصطفیٰ
کیوں ہوئے جاتا ہو حیراں کم نظر معراج سے
یہ تو ہے بس ابتدائے ارتقائے مصطفیٰ
سوزِ حبِّ دنیا سے یہ دل مرا بے چین ہے
ہے علاجِ دردِ دل دستِ شفائے مصطفیٰ
آپ کے دربار سے وابستہ ہے کشتِ سخن
کرتا ہوں سیراب کھیتی از ثنائے مصطفیٰ
یہ انا قاسم سے نکتہ رو برو آیا مرے
بٹ رہی ہے دو جہانوں میں سخائے مصطفیٰ
نعت لکھنے کا وظیفہ ہے کیا اس واسطے
ماہی کو مل جائے گی اس سے رضائے مصطفٰی

0
7