کفن پہ میرے لکھا ہوا ہے
کہ اپنوں کو دم دیا ہوا ہے
یہ کون پھیلا رہا ہے دہشت
نقاب منھ پر کیا ہوا ہے
کہا یہ قاضی نے ظلم کر کے
مصالحت نے لیا ہوا ہے
فساد کی بو جو آ رہی ہے
شعور کا گل کھلا ہوا ہے
غریب زادہ کرے کلرکی
امیر کو فن دیا ہوا ہے
لگان ہوگا ہر ایک سانس پہ
یہ حکمِ حاکم ملا ہوا ہے
بتا رہی ہے یہ سرخی منھ کی
غریب کا خوں پیا ہوا ہے
وہ ووٹ لینے ہیں آئے پھر سے
دیائے شرم اب بجھا ہوا ہے
قتال کا کوئی کیسے سوچے
کہ قتل ہی یوں کیا ہوا ہے
قتال کا کوئی کیسے سوچے
کہ قتل ہی یوں کیا ہوا ہے
تو دیکھ نقشے پہ ملک اپنا
کہ شہر آشوب لکھا ہوا ہے
کھلے ہوئے یوں تھے لاش کے لب
جوں اس نے فاقہ کیا ہوا ہے
بتا رہے تھے یہ بال بھی کہ
اذیتوں میں جیا ہوا ہے
کھلی ہوئی آنکھیں یوں تھی جیسے
کہ دھو کے سے دم لیا ہوا ہے
مڑی ہوئی یوں تھی گر دن اس کی
کہ اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے
اٹھے ہوئے تھے یوں پنجے جیسے
سفر کو اب بھی چلا ہوا ہے

11