ہزار درد تھے پر ایک درد باری تھا
کئی ہزار سے اک وار تیرا کا ری تھا
مری تو لاش بھی اس کو دکھائی ہی نہ گئی
دکھائی نا گئی میری تو لاش بھی اس کو
کہ خو ف اتنا مرا دشمنوں پہ طاری تھا
سراغ پھر بھی نہ ملا کوئی بھی منزل کا
حا لاں کہ ہجر ترا آسماں شماری تھا
مزاج اس کا تھا کچھ کچھ خدا سے بھی ملتا
عذاب ہم پہ تھا غیروں پہ فیض جاری تھا
بنا دیا ہے مجھے اس کے درد نے کندن
کہوں یا نہ کہوں وہ شخص تو سناری تھا

0
2