مکان کچے بھی سہانے ہوتے ہیں
وابستہ ان سے بھی فسانے ہوتے ہیں
نئے تھے جو کبھی پرانے ہوتے ہیں
یہ دن بھی عشق نے دکھانے ہوتے ہیں
کہاں مجھے یہ شعر کہنا آتے ہیں
یہ تیری یاد کے بہانے ہوتے ہیں
خموش رہتا ہوں میں اس لیے کچھ
کہ تیرے عیب بھی چھپانے ہوتے ہیں
پرانے گھر کبھی گرایا نا کرو
کہ ان کے نیچے بھی خزانے ہوتے ہیں
فریب کھاتے ہیں جو بھی زمانے سے
خدا سے ان کے ہی یرانے ہوتے ہیں
مکان کچے ہوتے ہیں گاؤں کے پر
بڑے ہی پختہ وہ گھرانے ہوتے ہیں
جو لوگ اندروں شکستہ ہوتے ہیں
مرے خیال کے دیوا نے ہوتے ہیں
پرندوں کی دو چار دن کی زندگی
میں بھی طرب کے کچھ زمانے ہوتے ہیں
میں دو گھڑی سو لیتا ہوں تو اس لیے
کہ خواب آنکھوں میں سجانے ہوتے ہیں
نہ کر تو رفتگاں کا کچھ بھی غم ما ہی
کہ بچھڑے رب نے ہی ملانے ہوتے ہیں

0
10