ہم فقیروں کے پاس کچھ نہیں
آسرا کوئی آس کچھ نہیں
بیشتر کھا جاتا ہوں دھوکہ میں
نرم خو ہوں بس خاص کچھ نہیں
یہ ہیں پھول علم و ہنر کے وہ
جن کے بیچ بو باس کچھ نہیں
سوئے دشت عاشق چلے ہیں کیوں
گر وہاں بھی ہے خاص کچھ نہیں
مبتلائے غربت ہے دنیا یہ
ورنہ بھوک افلاس کچھ نہیں
اصل رشتہ ہےروح جسم کا
روح نہ ہو تو سانس کچھ نہیں
خوں پیا ہے اس نے مرا جسے
پانی کی طلب ، پیاس کچھ نہیں
رزق کی لگن میں مرے تو اس
جسم پر رہا ماس کچھ نہیں

0
15