Circle Image

محمد طیب

@Mtaiyab

آندھیوں میں چراغ لیکر میں* جس طرف تھی ہوا ادھر بیٹھا

میں تو تیرا اپنا تھا
کیا یہ میرا سپنا تھا؟
رستہ چاہے سیدھا تھا
پر کہرا تو گہرا تھا
باتیں جھوٹی تھیں تو تھیں
لہجہ لیکن اچھا تھا

0
15
پانی کا بلبلہ ہے تری حیثیت ہے کیا
قطرہ ہے گندگی کا تری اہمیت ہے کیا
رب کا تھا حکم سر کو جھکانا سو جھک گئے
ذروں کو نور پر بھی کہیں فوقیت ہے کیا
مولیٰ کا ہے کرم کہ خلیفہ ہے تو مگر
خاکی ہے تیری اوربھلا خاصیت ہے کیا

0
21
تپ کے انگار پہ ذرہ بھی چمک جاتا ہے
پھر بھی انسان تو محنت سے جھجک جاتا ہے
ہم نے کانٹوں کو مہکتے ہوئے دیکھا یاروں
پھول تو پھول ہے اگتے ہی مہک جاتا ہے
سوچتا ہوں کہ دیا ایسا تلاشوں جس کے
سامنے آ تے ہی طوفان ٹھٹک جاتا ہے

21
یہ دائمی کتاب مٹا پاؤگے کہاں
دل میں ہے عاشقوں کے جلا پاؤگے کہاں
آندھی سے کہہ رہا ہے یہ جلتا ہوا چراغ
فانوس ہے خدا تو بجھا پاؤگے کہاں
بنیاد میں لگی ہو محبت کی اینٹ تو
دیوار ایسے گھر کی ہلا پاؤگے کہاں

0
11
بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے
جہاں پر تیرگی ہی تیرگی ہے
جسے پردیس جاکر ڈھونڈ تے ہو
تمہارے دیس میں ہی وہ خوشی ہے
امارت کا نشہ بتلا رہا ہے
بسی دل میں ابھی تک مفلسی ہے

0
35
صاحبوں سے خیال پوچھا تھا
ہم پہ کیوں ہےوبال ہے پوچھا تھا
میرے اپنے بھڑک گئے مجھ پر
خون میں ہے ابال؟ پوچھا تھا
لوٹنے والا کون تھا یارو
چور یا کوتوال پوچھا تھا

0
24
زندگی مختصر ہے مگر  دائمی بھی ہو سکتی ہے اگر آپ لوگوں کے دلوں پر اپنا چھاپ چھوڑ دیں

43
محفل میں آواز لگائی جاتی ہے
بے مطلب کی بات سنائی جاتی ہے
فرصت کس کے پاس ہے ملنے جلنے کی
مجبوراً اب رسم نبھائی جاتی ہے
پہلے ڈر تھا پتھر کا اب خوف نہیں
شیشے کی دیوار بنائی جاتی ہے

2
54
ایسے ہر پیڑ کو جڑ سے ہی اکھڑ جانا ہے
جس نے ٹھانی ہے کہ آندھی میں اکڑ جانا ہے
اپنی جاگیر سمجھنا نہ کبھی ٹہنی کو
پتیوں شاخ سے تم سب کو ہی جھڑ جانا ہے
میں نے دنیا کو فقط اتنا ہی جانا لوگوں
بے وفا یار ہے آخر کو بچھڑ جانا ہے

2
50
بنا کر مجھے پہلے پرکھا گیا
فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا
ملی مجھ کو پہلی خطا کی سزا
بہشتِ بریں سے نکالا گیا
لیے ہاتھ میں تیشہ امید کا
پہاڑِ مصیبت کو ڈھاتا گیا

0
1
61
کیا بتاؤں کیسے جیتا ہوں سوائے آپ کے
دل کے زخموں کو میں سیتا ہوں سوائے آپ کے
درد منزل ہوگی میری کیا پتہ تھا یہ مجھے
غم جدائی کا میں پیتا ہوں سوائے آپ کے
جو پڑھے مجھ کو وہ روئے غم کی ہوں میں داستاں
درد کی کوئی کویتا ہوں سوائے آپ کے

0
45
پوچھتی ہے ہم سے دنیا آپ کیا کرتے رہیں
ہم تو دیوانے ہیں انکا تذکرہ کرتے رہیں
اپنے ہونٹوں پر سجا کر اسم اعظم ہر گھڑی
خوب آسانی سے سر ہر راستہ کرتے رہیں
حق ادا ہو بندگی کا یہ تو ممکن ہی نہیں
چاہے بیٹھے عمر بھر انکی ثنا کرتے رہیں

0
30
دل جو بیمار ہے شاعری کیجیے
غم سے دوچار ہے شاعری کیجیے
راستہ چاہے ہموار ہے یا صنم
راہ دشوار ہے شاعری کیجیے
غم کی واحد دوا دل جلے عاشقوں
بے وفا یار ہے شاعری کیجیے

0
57
جہاں میں پھیلی ہوئی جو وفا کی خوشبو ہے
حرا سے آئی تھی جو اس صدا کی خوشبو ہے
دبا رہا ہے زمانہ اسے زمانے سے
نہ دبنے پائیگی رب العلٰی کی خوشبو ہے
تمہارے شہر نے سر سے اتار دی چادر
ہمارے گاؤں میں اب بھی حیا کی خوشبو ہے

102
لائی غربت اب سر بازار ہے
میں سوالی اور ترا دربار ہے
شہر جاناں سے بنا لو دوریاں
جو گیا وہ آج تک بیمار ہے
چڑھ گیا عشق کا اس پر بخار
اب دوا ہو یا دعا بیکار ہے

0
54
محبت ہوگئی ہے کیا کسی سے
. پئے جاتے ہو غم کو بھی خوشی سے
چلو چل کر کے دیکھیں آسماں پر
ستارے کھیلتے ہیں روشنی سے
سنا اس نے مجھے ایسے کہ جیسے
میں باتیں کر رہا ہوں اجنبی سے

0
63
زندگی کے لطف کا ادراک کرنے کے لیے
عشق کرنا چاہیے دل پاک کرنے کے لیے
سچ میں پیدا ہو اگر احساس تو کافی ہے یہ
پردۂ غفلت کو دل سے چاک کر نے کے لیے
کرکے ہمت بڑھ خدا کے فضل سے چمکے گا تو
جتنی کوشش کرلے دنیا خاک کرنے کے لیے

0
141
تجھ پہ اب اعتبار کون کرے
یہ خطا بار بار کون کرے
دل دکھا کر قریب آتا ہے
دور جا تجھ سے پیار کون کرے
تیرے وعدوں پہ دل سے کرکے یقیں
خود کو ہی شرمسار کون کرے

0
73
پیغامِ وصلِ یار مرے گھر میں آگیا
دیکھو سفید بال مرے سر میں آگیا
جھک جائیگا فلک بخدا تیرے سامنے
پرواز کا ہنر جو ترے پر میں آگیا
حاسد جلیگا موت تلک سوچ سوچ کر
کیسے کوئی بھی میرے برابر میں آگیا

0
55
در ترا چھوڑ کے دیوانہ کدھر جائے گا
ساتھ تیرا جو اگر چھوٹا تو مر جائے گا
لہلہاتے ہوئے کھیتوں نے سکھایا مجھکو
خود کو جس وقت مٹائیگا ابھر جائے گا
رابطہ اپنے بڑوں سے تو بنائے رکھنا
اپنے اسلاف سے کٹ کر تو بکھر جائے گا

0
41
نہ وہ فصل فصلِ بہار تھی نہ تو عشق تھا نہ ہی پیار تھا
وہ خطا تھی میری ہی سونچ کی مجھے عاشقی کا بخار تھا
اسے آسرا جو سمجھ لیا یہ قصور میرے ہی دل کا ہے
جو گرا سمجھ میں یہ آگیا کہ فقط ہوا پہ سوار تھا
تھی تلاش مجھکو سکون کی میں غلط پتے پہ پہنچ گیا
جو ملا مجھے وہ سراب تھا، نہ سکون تھا نہ قرار تھا

0
43
محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں
وبا کتنی پرانی لکھ رہا ہوں
نگاہیں اشک سے بھیگی ہوئی ہیں
بھٹکتی زندگانی لکھ رہا ہوں
ہوس نے عشق کی اوڑھی ہے چادر
بگڑتی نو جوانی لکھ رہا ہوں

0
84
سنو محبوب چلّاتا ہے میرا
مرے مرجائے کیا جاتا ہے میرا
نہ جانے کیوں مدد کردوں میں جس کی
وہی ہر کام اٹکا تا ہے میرا
پنپنے کی ذرا کرتا ہوں کوشش
زمانہ پر کتر جاتا ہے میرا

0
39
سونچ سمجھ کر بولو بچوں
منہ نہ ایسے کھولو بچوں
صبح سویرے اُٹھ جاؤ تم
اٹھتے ہی منہ دھولو بچوں
ناخن کاٹو بال بناؤ
صاف ہمیشہ ہولو بچوں

0
82
اس نئے دور میں ہر درد کو راحت لکھیے
عزّتیں لٹتی ہیں لٹ جائیں ، حفاظت لکھیے
بات اتنی سی قلم کاروں سے کہنی ہے مجھے
حق اگر لکھ نہیں سکتے ہیں تو کچھ مت لکھیے
جھوٹ، دھوکہ ہو حسد ، لڑنا ، لڑانا ، چوری
سب کو اک ساتھ اگر لکھیے ، سیاست لکھیے

0
1
67
مصائب سے نکلنے کی چلو تدبیر کرتے ہیں
جلے ہیں آگ میں تو خود کو ہی شمشیر کرتے ہیں
جھکائے سر جو بیٹھا ہوں تو نہ ذرہ سمجھ لینا
سنو ہم آسماں کو فرش سے تعبیر کرتے ہیں
جہاں والوں پہ تکیہ سوچ کر کرنا کہ اکثر یہ
مسائل حل نہیں کرتے ہیں بس تقریر کرتے ہیں

0
66
ضمانت چھین لی رب نے حفاظت چھین لی رب نے
جہاں میں سب پریشاں ہیں حمایت چھین لی رب نے
بلانے پر نہ آتے تھے بہانے ہم بناتے تھے
مسلمانوں نمازِ باجماعت چھین لی رب نے
اذانیں روز ہوتی تھیں مگر ہم سوئے رہتے تھے
اذانیں چھین لی رب نے ثقافت چھین لی رب نے

39
مجھ سے ملنے میں صنم رسوائیوں کا خوف تھا
آپ کو توبھیڑکی پرچھائیوں کا خوف تھا
دشمنوں کی چال سے مجھ کو نہیں لگتا تھا ڈر
نا سمجھ کی کی ہوئی اچھائیوں کا خوف تھا
ہم سمندر پار کر لیتے تھے یوں ہی تیر کر
موج کا نا تو ہمیں گہرائیوں کا خوف تھا

0
74
ہر شئی سے شیتل ہے قرآنِ اکرم
رحمت کا بادل ہے قرآنِ اکرم
پاگل ہی کہتا ہے قرآں کو ناقص
کامل ہے اکمل ہے قرآنِ اکرم
جو چاہے پڑھنا وہ پڑھ لے یقیناً
آسان و اسہل ہے قرآنِ اکرم

0
64
کالے بادل کو صنم رخ سے ہٹا دیتے ہیں
اس طرح دل میں لگی آگ بجھا دیتے ہیں
دلنشیں انکی ادائیں ہیں، نگاہیں قاتل
زخم دل پر وہ نگاہوں سے لگادیتے ہیں
ہم نے منزل پے پہنچنے کی قسم کھائی ہے
آندھیوں میں بھی قدم اپنا بڑھا دیتے ہیں

0
100
تھوڑا مشکل تھا مگر زخم سنبھالے ہم نے
درد میں ہنس کے ہی ایام نکالے ہم نے
اب ہمیں فکر نہیں جو بھی ہو بہتر ہوگا
خود کو جب کر ہی دیا رب کے حوالے ہم نے
پوچھنے حال کوئی رات میں آیا ہی نہیں
دیگ پانی سے بھرے کتنے ابالے ہم نے

0
111
پنچایت کے لوگوں نے اس بار یہ ملکے ٹھانا ہے
اب کی بار تو مکھیا پد پے سیف خان کو لانا ہے
ہر گھر کو ہے روشن کرنا ہر بچے کو پڑھانا ہے
علم و ہنر کا دیپ نگر کے ہر ہر گھر میں جلانا ہے
اب کی بار تو مکھیا پد پے سیف خان کو لانا ہے
بجلی، پانی چھت اور روٹی ، پہلا مشن ہمارا ہے

0
77
ضلالت تو ہے ہی حقیقت میں آگ
ولی نے لگائی ولایت میں آگ
بھروسہ وفا پر بھی ہوتا نہیں
صداقت، شرافت ، اطاعت میں آگ
کبھی دشمنوں میں بھڑکتی تھی پر
بھڑکتی ہے اب تو اخوت میں آگ

0
125
گزرگاہِ محبت میں بہت بیمار بیٹھے ہیں
پتنگے جان دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں
دلوں کو موہ لیتے ہیں جو اپنی پیاری باتوں سے
چھپاکر آستینوں میں وہی تلوار بیٹھے ہیں
غریبوں سے چراکر مالداروں کو کھلاتے ہیں
ہمارے شہر میں ایسے کئی دلدار بیٹھے ہیں

127
دریا جو سمندر سے مل جائے امر ہوگا
مضبوط جڑیں ہوں تو مضبوط شجر ہوگا
غیروں کے بھروسے پر بھٹکو گے بھلا کب تک
اپنا ہو اگر رہبر محفوظ سفر ہوگا

0
109
سن تو ذرا کرم کی آواز آ رہی ہے
روٹھے ہوئے صنم کی آواز آ رہی ہے
تم کیوں نہ آئے ملنے ہم کو صنم منانے
پیاری سی چشمِ نم کی آواز آ رہی ہے
فرقت تو ہوگی لمبی اب منتظر رہو تم
پھر سے نئے الم کی آواز آ رہی ہے

76
کیا اثر ہوتا ہے بے بس کی دعا کا دیکھنا
حوصلہ ٹوٹے گا ظالم ناخدا کا دیکھنا
پیڑ جو اکڑا ہوا ہے کوئی اسکو دے بتا
توڑ ہی دیگا تجھے جھوکا ہوا کا دیکھنا
روز سورج سوچتا ہے آج میرا راج ہے
خون روتا ہے ذرا منظر مسا کا دیکھنا

3
142
لگا ہوں جس کو مصیبت سے میں بچانے میں
وہی لگا ہے مری مشکلیں بڑھانے میں
لگے ہیں یار مرے گھر مرا جلانے میں
مرے دیار سے مجھ کو ہی اب بھگانے میں
غموں نے گھیر لیا درد ہے مصیبت ہے
لگے ہو تم تو فقط حال ہی سنانے میں

111
بادل سے پیار برسے بس اتنا چاہتے ہیں
نفرت مٹے ڈگر سےبس اتنا چاہتے ہیں
بیٹی رہے سلامت ہر گھر کی ہو حفاظت
شیطان کی نظر سے بس اتنا چاہتے ہیں
ظالم ہو جو درندہ تھرّائے کپ کپائے
انسانیت کے ڈر سے بس اتنا چاہتے ہیں

0
72
ذرا ہوا سے اتر، آ زمیں پے آکر دیکھ
کبھی تو یار کسی کو تو مسکرا کر دیکھ
ملے گی تجھ کو خوشی دل کا بوجھ کم ہوگا
کسی غریب کو سینے سے تو لگا کر دیکھ
بہت غرور ہے تجھکو تری بلندی پر
اے آسمان ذرا مجھکو آزما کر دیکھ

0
102
ترقی دیش کی یوں ہو رہی ہے
بہن ماں اور بیٹی رو رہی ہے
درندے گھومتے ہیں راستوں میں
قفس میں پیاری بلبل سو رہی ہے
جو کہتے ہیں بچاؤ بیٹیوں کو
خطا ان سے ہی سرزد ہو رہی ہے

0
97
حق بات سرِ بزم سناکر گیا ہے وہ
آئینہ حقیقت کا دکھا کر گیا ہے وہ
بے باک، نڈر، الفت و چاہت کا پیمبر
سارے جہاں کو جینا سکھا کر گیا ہے وہ

0
69
سارے عالم کو رلا کر چل دئیے حضرت امیں
سوئے جنت مسکراکر چل دئیے حضرت امیں
دین کی خاطر کھپا دی آپنے یہ زندگی
دعوتِ حق کو سجا کر چل دئیے حضرت امیں
نیک سیرت خوش مزاج و حق کے داعی آپ تھے
زندگی جینا سکھا کر چل دئیے حضرت امیں

0
124
زمیں پر آسماں تیرا اترنا اب ضروری ہے
گھمنڈی ہو گیا ہے تو سدھرنا اب ضروری ہے
بہت تم نے دکھا دی اے سمندر اپنی طغیانی
تمہارا آکے ساحل پر بکھرنا اب ضروری ہے
جلا کر شہر وہ آرام سے بیٹھے ہیں گدی پر
سبھی ظالم کا گدی سے اترنا اب ضروری ہے

0
118