| بھلا وہ زندگی بھی زندگی ہے |
| جہاں پر تیرگی ہی تیرگی ہے |
| جسے پردیس جاکر ڈھونڈ تے ہو |
| تمہارے دیس میں ہی وہ خوشی ہے |
| امارت کا نشہ بتلا رہا ہے |
| بسی دل میں ابھی تک مفلسی ہے |
| محبت جس کی بنیادوں میں تھی وہ |
| عمارت آج بھی سیدھی کھڑی ہے |
| زباں سے دوستی دل میں عداوت |
| سیاست آپ نے بھی سیکھ لی ہے |
| کسی کی آہ کانوں میں پڑی تھی |
| وہی آواز دل میں چبھ رہی ہے |
| دیا بجھتا ہے تو بجھ جائے طیب |
| کہاں جلنے سے اسکے روشنی ہے |
| محمد طیب برگچھیاوی |
معلومات