| جہاں میں پھیلی ہوئی جو وفا کی خوشبو ہے |
| حرا سے آئی تھی جو اس صدا کی خوشبو ہے |
| دبا رہا ہے زمانہ اسے زمانے سے |
| نہ دبنے پائیگی رب العلٰی کی خوشبو ہے |
| تمہارے شہر نے سر سے اتار دی چادر |
| ہمارے گاؤں میں اب بھی حیا کی خوشبو ہے |
| اکڑ دکھائے کبھی زندگی تو یہ کہنا |
| تری رگوں میں بھری بس دغا کی خوشبو ہے |
| مجھے دکھاؤ نہ یوں خواب جان جاں اب تو |
| تمہارے ہاتھ میں اب بھی حنا کی خوشبو ہے |
| کسی کے کام بھلا آئے گی کبھی دنیا |
| جہاں بھی دیکھئے جور و جفا کی خوشبو ہے |
| ہمیں جھکا نہ سکے گا کبھی جہاں طیب |
| ہمارے ساتھ تو ماں کی دعا کی خوشبو ہے |
معلومات