| ایسے ہر پیڑ کو جڑ سے ہی اکھڑ جانا ہے |
| جس نے ٹھانی ہے کہ آندھی میں اکڑ جانا ہے |
| اپنی جاگیر سمجھنا نہ کبھی ٹہنی کو |
| پتیوں شاخ سے تم سب کو ہی جھڑ جانا ہے |
| میں نے دنیا کو فقط اتنا ہی جانا لوگوں |
| بے وفا یار ہے آخر کو بچھڑ جانا ہے |
| عشق کے نام پہ بستی میں بساؤں کیوں کر |
| مجھ کو معلوم ہے جب بس کے اجڑ جانا ہے |
| مختصر سا ہے سفر اپنا جہاں میں یاروں |
| خاک سے آئے ہیں پھر خاک میں گڑ جانا ہے |
| کاش یہ وقت ہمیں پھر سے بنا دے بچہ |
| ماں کے آنچل میں ہمیں پھر سے سکڑ جانا ہے |
| ہر طرف پھیلی ہوئی ہے جو برائی طیب |
| نفس کے ہاتھ میں انساں کا جکڑ جانا ہے |
معلومات