| وہی زخم پھر سے ستانے لگے ہیں |
| جنہیں سوکھنے میں زمانے لگے ہیں |
| جنہیں بے وفائی کا تمغہ ملا ہے |
| وہی اب ہمیں آزمانے لگے ہیں |
| غلامی کی ایسی لگی ہم کو عادت |
| یوں ہی بے وجہ سر جھکا نے لگے ہیں |
| بہا کر لہو ہم کماتے ہیں روٹی |
| وہ روٹی بھی ہم سے چرانے لگے ہیں |
| سیاست کسی کو کہاں چھوڑتی ہے |
| یہاں ہوش سب کے ٹھکانے لگے ہیں |
| شہادت ہماری محبت ہے لوگوں |
| ہمیں موت سے کیوں ڈرانے لگے ہیں |
| چمک دیکھ نے ایک ذرے کی طیب |
| فلک سے ستارے بھی آنے لگے ہیں |
معلومات