| مصائب سے نکلنے کی چلو تدبیر کرتے ہیں |
| جلے ہیں آگ میں تو خود کو ہی شمشیر کرتے ہیں |
| جھکائے سر جو بیٹھا ہوں تو نہ ذرہ سمجھ لینا |
| سنو ہم آسماں کو فرش سے تعبیر کرتے ہیں |
| جہاں والوں پہ تکیہ سوچ کر کرنا کہ اکثر یہ |
| مسائل حل نہیں کرتے ہیں بس تقریر کرتے ہیں |
| غریبوں کے لہو پر نفرتوں کی اینٹ رکھ رکھ کر |
| ہمارے شہر میں عمدہ محل تعمیر کرتے ہیں |
| بڑوں کے سامنے حالت ہماری ایسی ہوتی ہے |
| نظر اٹھنے نہیں دیتے ہیں یوں توقیر کرتے ہیں |
| محبت پیار الفت عشق سب کہنے کی باتیں ہیں |
| جہاں مطلب نکل جائے سبھی تکفیر کرتے ہیں |
| انہیں معلوم ہے طیب نگاہیں انکی پیاسی ہیں |
| بہت ظالم ہیں پھر بھی آنے میں تاخیر کرتے ہیں |
معلومات