Circle Image

Muhammad Zahid Malik

@mzahidmalik

ایک سے پھر دوسری بات نکل جاتی ہے
سوچ میں پڑ جائیں تو رات نکل جاتی ہے

0
13
مجبوریوں کو میری جفا کہتا ہوگا
اور مجھ کو یقینا بے وفا کہتا ہوگا
ڈستے ہونگے تذکرے الفت کے اب اس کو
وہ دل کی لگی کو بھی خطا کہتا ہوگا
میری چاہت کو بھی فقط کھیل کہے گا
جذبات کو وہ میرے ریا کہتا ہوگا

0
25
امید آخر دم توڑ دیتی ہے
یہ راہ میں یونہی چھوڑ دیتی ہے
گمانِ منزل بھی ہو اگر کہیں
وہیں پہ لوح نیا موڑ دیتی ہے
رکیں کہیں, سستانے لگیں کبھی
یہ زندگی پھر جھنجھوڑ دیتی ہے

24
کِسی کو خرید لیا کِسی کو اُٹھا لیا
کِسی خوابگاہ میں کیمرہ بھی لگا لیا
جو نِکل گیا کوئی ارضِ پاکِ وطن سے تو
کسی دُور دیس میں اُس کو قتل کرا لیا
کہیں برق ہے گِری کاروبار پہ تو کہیں
بے جھجھک ٹھِکانہ کسی بے بس کا گِرا لیا

0
16
چل چلائو کے اب آثار نظر آتے ہیں
حضرتِ دِل ہیں کہ بیمار نظر آتے ہیں
دست بردار ہوں میں اپنے سبھی خوابوں سے
کیوں تِرے ہاتھ میں ہتھیار نظر آتے ہیں
کٹ گئے جیسے بھی دِن، سمجھو کہ آساں ہو گئے
رہ گئے جتنے، وہ دُشوار نظر آتے ہیں

0
95
سُنتے تھے دردِ دِل کی دوا دیتے ہو
تُم تو لیکن اِسے اور بڑھا دیتے ہو
غیر سے گفتگو والِہانہ مگر
تِشنگی کو ہماری جِلا دیتے ہو
جام کیسا کہاں کا یہ پیمانہ پھر
تم نظر سے نظر جب ملا دیتے ہو

0
138
رنج و غم سے ہے عبارت یہ کِتابِ زندگی
رو دیے ہم دیکھ کر اک دن نصابِ زندگی
پوچھتے ہو کیا ہماری داستانِ زیست تم
جی رہے ہیں پر نہیں ہے اب تو تابِ زندگی
مطمئن ترکِ وفا کے بعد ہے وہ بھی بہت
ہم بھی سہہ جائیں گے آخر یہ عذابِ زندگی

0
98
تِرے جہاں میں یا رب جِدھر جِدھر ہے دیکھا
بس اِک قیامت ہے دیکھی، ایک حشر ہے دیکھا
کہ وقت کے تپتے ریگ زار میں ہم نے تو
نہ سایہ کوئی سر پر، نہ ہی شجر ہے دیکھا

0
82
غم تو یہ ہے کہ تمہیں بھلانے کا غم نہیں
گر سوچ پائے کوئی تو یہ غم بھی کم نہیں
کس طرح کھوج لیتے ہیں دردِ نہاں یہ لوگ
ہنس بھی رہا ہوں اور یہ آنکھیں بھی نم نہیں

0
44
اب تو یہ حال ہو گیا ہے
تیرا ہی خیال ہو گیا ہے
یہ عالم ہے کہ اب تِرے بِن
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہو کس کے تصورات میں گُم
مُجھ سے یہ سوال ہو گیا ہے

0
108
حوصلے پھر آزما کے دیکھتے ہیں
کشتیاں اپنی جلا کے دیکھتے ہیں
اُن کو بھی راس آگئی ہیں دُوریاں اب
فاصلے ہم بھی بڑھا کے دیکھتے ہیں
قاصدوں نے اپنی سی کرلی، چلو اب
معجزے اپنی صدا کے دیکھتے ہیں

0
90
اے غمِ زندگی کوئی لمحہ اُدھار دے
پل بھر کو ہی سہی کوئی راہِ فرار دے
گو عمر بھر نبھائی ہے رسمِ وفا، مگر
اب بے وفائی کا بھی مجھے اختیار دے
پھرتے ہیں ننگے پائوں تپے ریگ زار میں
جو ہو سکے تو ایک شجر سایہ دار دے

0
341
جتنی بھی زیرِ آسماں گزری
اِس دلِ زار پر گراں گزری
ہم اسی موڑ پر کھڑے رہ گئے
تم کہو، زندگی کہاں گزری
یاد بھی آئے ہم کبھی تم کو
میرے بن کیسی جانِ جاں گزری

0
139
دنیا کے غموں سے دُور ایسا کہیں گھر ہو
واں آرزو پانے کی، نہ کھونے کا ڈر ہو
میں ہی کِسی سے اور نہ مجھ سے مِلے کوئی
میں بھی بے خبر، دنیا مجھ سے بے خبر ہو
ارمان وفا کا ہو نہ دردِ بے وفائی
دِل آئے کسی پر نہ کوئی خونِ جگر ہو

0
76
دلِ ناداں عجب جستجو میں ہے
قرار اِس کا تِری گفتگو میں ہے
رہے تُو سامنے تو لگے ایسا
اُجالا سا مِرے رُوبرو میں ہے
تُجھے سوچا بہت بار تو جانا
مکیں تُو ہر مِری آرزو میں ہے

0
74
یوں بھی تیرا خیال رکھا ہے
تیرے غم کو سنبھال رکھا ہے
چھوڑ کر تُو مجھے گیا جب سے
میں نے دِل پُر ملال رکھا ہے
چاندنی بھی اُداس لگتی ہے
کہ کوئی درد پال رکھا ہے

0
185
سوئے منزل کوئی اشارہ مِلے
کاش کشتی کو اب کنارہ ملے
گو مِرے ہاتھ سے سفینہ گیا
تِنکے کا ہی کوئی سہارا ملے
ڈھونڈ لے راکھ میں مِری آ کر
گر تُجھے یاں کوئی شرارہ ملے

93
کیا خبر کِس کِس بہانے آئیں گے
اور بھی کُچھ غم ستانے آئیں گے
ہنستے چھوڑا تھا کِسی پل نے کبھی
سود لینے اب زمانے آئیں گے
گو کبھی آئے نہیں وہ خواب میں
گر کبھی آئے، جلانے آئیں گے

106
درد کیسے عیاں نہ ہوتا
اشک کیسے رواں نہ ہوتا
برق جو ہے گری فلک سے
راکھ کیوں آشیاں نہ ہوتا
کم نہیں تھے زمانے کے غم
کاش غمِ جاناں نہ ہوتا

99
رات بھر خُود سے ہمکلام رہے
لفظ جتنے تھے تیرے نام رہے
کیا بتائیں کہ گُزری ہے کیسے
تیری یادوں میں صبح و شام رہے
جب کبھی فاصلے شمار کیے
منزلوں سے فقط دو گام رہے

64
خواب دِلکش سہی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اِس دِلِ زار کو تقدیر سے ڈر لگتا ہے
خواہشیں آ بسی دِل کے نِہاں خانوں میں ہیں
خواہشوں کی اِسی جاگیر سے ڈر لگتا ہے
ہم اُٹھا تو لیں اے واعظ دُعا کو ہاتھ ابھی
پر دُعا کی ہمیں تاثیر سے ڈر لگتا ہے

217
اس طرح سے ہم تِرے مہمان ٹھہریں
چُپکے چُپکے دل میں تیرے آن ٹھہریں
لہُو بن کے تیری رگ رگ میں سما جائیں
جِسم ہے تُو تو تِری ہم جان ٹھہریں
تیری آنکھوں میں رہیں بن کے کوئی خواب
اور دُعائوں کا تِری عنوان ٹھہریں

115
بھلی لگتی تھیں پیار کی باتیں
رنگ خُوشبو بہار کی باتیں
ایک ہی شخص سے تھیں وابستہ
بے قراری، قرار کی باتیں
گر سرِ راہ بھی ملا کوئی
تو فقط کوئے یار کی باتیں

93