اس طرح سے ہم تِرے مہمان ٹھہریں
چُپکے چُپکے دل میں تیرے آن ٹھہریں
لہُو بن کے تیری رگ رگ میں سما جائیں
جِسم ہے تُو تو تِری ہم جان ٹھہریں
تیری آنکھوں میں رہیں بن کے کوئی خواب
اور دُعائوں کا تِری عنوان ٹھہریں
راز ہو جائیں تِری خوشیوں کا پھر ہم
بن کے ہونٹوں پر تِرے مُسکان ٹھہریں
جاگ میں ہم اور تیرے خواب میں ہم
ہم ہی تیری سوچ اور وجدان ٹھہریں
حال کیا ہو تیرا اے دِلِ نا اُمید
جو وصالِ یار کے امکان ٹھہریں
اِس گھنیری زُلف کے سائے میں زاہد
ہو کے دنیا سے کبھی انجان ٹھہریں

115