رنج و غم سے ہے عبارت یہ کِتابِ زندگی
رو دیے ہم دیکھ کر اک دن نصابِ زندگی
پوچھتے ہو کیا ہماری داستانِ زیست تم
جی رہے ہیں پر نہیں ہے اب تو تابِ زندگی
مطمئن ترکِ وفا کے بعد ہے وہ بھی بہت
ہم بھی سہہ جائیں گے آخر یہ عذابِ زندگی
ہو گئی ہیں مختصر اب انجمن آرائیاں
ایک ہم ہیں اور اک یہ اضطرابِ زندگی
آن لیٹے ہیں ابھی اہلِ جہاں کے ہم ستائے
اے فرِشتو آ گئے لینے حسابِ زندگی
جام کوئی ساقیا میرے اِدھر بھی لا کبھی
قطرہ قطرہ پی رہا کوئی شرابِ زندگی
وَرغَلا کے اِس دِلِ ناداں کو دیکھو تو سہی
موت کے نزدیک لے آیا ہے خوابِ زندگی
زندگی جس کو سمجھ کر جیتے تھے زاہد کبھی
زندگی کب تھی مگر تھا اِک سرابِ زندگی

0
98