سوئے منزل کوئی اشارہ مِلے
کاش کشتی کو اب کنارہ ملے
گو مِرے ہاتھ سے سفینہ گیا
تِنکے کا ہی کوئی سہارا ملے
ڈھونڈ لے راکھ میں مِری آ کر
گر تُجھے یاں کوئی شرارہ ملے
اِک تمنا رہی ہمیشہ سے
راہ میں وہ کبھی دوبارہ ملے
جو مسیحا رہے وہی قاتل
جو نشاں قتل کا ہمارا ملے
دیکھ لے ڈوبتا مجھے زاہد
پھر کہاں یہ تجھے نظارہ ملے

93