| سوئے منزل کوئی اشارہ مِلے |
| کاش کشتی کو اب کنارہ ملے |
| گو مِرے ہاتھ سے سفینہ گیا |
| تِنکے کا ہی کوئی سہارا ملے |
| ڈھونڈ لے راکھ میں مِری آ کر |
| گر تُجھے یاں کوئی شرارہ ملے |
| اِک تمنا رہی ہمیشہ سے |
| راہ میں وہ کبھی دوبارہ ملے |
| جو مسیحا رہے وہی قاتل |
| جو نشاں قتل کا ہمارا ملے |
| دیکھ لے ڈوبتا مجھے زاہد |
| پھر کہاں یہ تجھے نظارہ ملے |
معلومات