امید آخر دم توڑ دیتی ہے
یہ راہ میں یونہی چھوڑ دیتی ہے
گمانِ منزل بھی ہو اگر کہیں
وہیں پہ لوح نیا موڑ دیتی ہے
رکیں کہیں, سستانے لگیں کبھی
یہ زندگی پھر جھنجھوڑ دیتی ہے
یہ عاشقی بھی تو اک بلا ہی ہے
جو آدمی کو بھنبھوڑ دیتی ہے
یہ دل ہمارا ہے آبلہ نہیں
جسے تو پل بھر میں پھوڑ دیتی ہے

24