حوصلے پھر آزما کے دیکھتے ہیں
کشتیاں اپنی جلا کے دیکھتے ہیں
اُن کو بھی راس آگئی ہیں دُوریاں اب
فاصلے ہم بھی بڑھا کے دیکھتے ہیں
قاصدوں نے اپنی سی کرلی، چلو اب
معجزے اپنی صدا کے دیکھتے ہیں
ہم نے سوچا تھا پشیماں ہونگے اِک دِن
وہ نہیں آگے انا کے دیکھتے ہیں
اب ضروری ہے بُھلایا جائے اُن کو
اِس نگر سے دُور جا کے دیکھتے ہیں
میں تماشا تو نہیں، کیوں لوگ مجھ کو
ایڑیاں اپنی اُٹھا کے دیکھتے ہیں
مِہرباں مُجھ پر تِرا غم ہی نہیں اِک
حادثے بھی مُسکرا کے دیکھتے ہیں
رو لیا اہلِ جہاں کے سامنے تو
اشک سجدے میں بہا کے دیکھتے ہیں
ہے خفا شاید خُدا بھی ہم سے زاہد
تو چلو اس کو منا کے دیکھتے ہیں

0
90