رات بھر خُود سے ہمکلام رہے
لفظ جتنے تھے تیرے نام رہے
کیا بتائیں کہ گُزری ہے کیسے
تیری یادوں میں صبح و شام رہے
جب کبھی فاصلے شمار کیے
منزلوں سے فقط دو گام رہے
جو دِیا ہے خُلوص سے تم نے
دردِ دِل کو مِرے دوام رہے
قاصدوں کا قصور تھا شاید
اَن کہے اپنے سب پیام رہے
مُدتوں بعد جا کے ہوش آیا
مُدتوں تیرے زیرِ دام رہے
اِک تمنائے دید میں زاہد
سوچ کتنے ہی اپنے کام رہے

74