| رات بھر خُود سے ہمکلام رہے |
| لفظ جتنے تھے تیرے نام رہے |
| کیا بتائیں کہ گُزری ہے کیسے |
| تیری یادوں میں صبح و شام رہے |
| جب کبھی فاصلے شمار کیے |
| منزلوں سے فقط دو گام رہے |
| جو دِیا ہے خُلوص سے تم نے |
| دردِ دِل کو مِرے دوام رہے |
| قاصدوں کا قصور تھا شاید |
| اَن کہے اپنے سب پیام رہے |
| مُدتوں بعد جا کے ہوش آیا |
| مُدتوں تیرے زیرِ دام رہے |
| اِک تمنائے دید میں زاہد |
| سوچ کتنے ہی اپنے کام رہے |
معلومات