خواب دِلکش سہی تعبیر سے ڈر لگتا ہے
اِس دِلِ زار کو تقدیر سے ڈر لگتا ہے
خواہشیں آ بسی دِل کے نِہاں خانوں میں ہیں
خواہشوں کی اِسی جاگیر سے ڈر لگتا ہے
ہم اُٹھا تو لیں اے واعظ دُعا کو ہاتھ ابھی
پر دُعا کی ہمیں تاثیر سے ڈر لگتا ہے
آ سکیں کام نہ تدبیریں کبھی بھی اپنے
اب تو یہ حال ہے تدبیر سے ڈر لگتا ہے
حسرتیں، نارسائی، کِرچیاں کچھ خوابوں کی
زندگی کی اِسی تصویر سے ڈر لگتا ہے
آنکھ بھر آتی ہے جو اب ذرا سی بات پہ بھی
جا بجا درد کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے
نفرتیں بو رہا ہے شعلہ بیانی سے تُو
اے مقرر تِری تقریر سے ڈر لگتا ہے
گو عیاں ہو چکا ہے رہبرِ دیں بھی میرا
میں اگر کُچھ کہوں تکفیر سے ڈر لگتا ہے
دین بکتا رہا اشکال میں یوں تو زاہد
غیر کو بِک رہی تکبیر سے ڈر لگتا ہے

217