| خواب دِلکش سہی تعبیر سے ڈر لگتا ہے |
| اِس دِلِ زار کو تقدیر سے ڈر لگتا ہے |
| خواہشیں آ بسی دِل کے نِہاں خانوں میں ہیں |
| خواہشوں کی اِسی جاگیر سے ڈر لگتا ہے |
| ہم اُٹھا تو لیں اے واعظ دُعا کو ہاتھ ابھی |
| پر دُعا کی ہمیں تاثیر سے ڈر لگتا ہے |
| آ سکیں کام نہ تدبیریں کبھی بھی اپنے |
| اب تو یہ حال ہے تدبیر سے ڈر لگتا ہے |
| حسرتیں، نارسائی، کِرچیاں کچھ خوابوں کی |
| زندگی کی اِسی تصویر سے ڈر لگتا ہے |
| آنکھ بھر آتی ہے جو اب ذرا سی بات پہ بھی |
| جا بجا درد کی تشہیر سے ڈر لگتا ہے |
| نفرتیں بو رہا ہے شعلہ بیانی سے تُو |
| اے مقرر تِری تقریر سے ڈر لگتا ہے |
| گو عیاں ہو چکا ہے رہبرِ دیں بھی میرا |
| میں اگر کُچھ کہوں تکفیر سے ڈر لگتا ہے |
| دین بکتا رہا اشکال میں یوں تو زاہد |
| غیر کو بِک رہی تکبیر سے ڈر لگتا ہے |
معلومات