اب تو یہ حال ہو گیا ہے
تیرا ہی خیال ہو گیا ہے
یہ عالم ہے کہ اب تِرے بِن
جینا بھی محال ہو گیا ہے
ہو کس کے تصورات میں گُم
مُجھ سے یہ سوال ہو گیا ہے
سُن پائوں تُجھے نہ دیکھ پائوں
اب ضبط بے حال ہو گیا ہے
تو دیکھ تو لے کبھی پلٹ کے
اک شخص نڈھال ہو گیا ہے
وہ جس کو عروج کا جنوں تھا
وہ رُو بہ زوال ہو گیا ہے
ہیں الجھنیں بھی قدم قدم پر
ہر راستہ جال ہو گیا ہے
درپیش ہے ہجر بھی یوں زاہد
ہر لمحہ سال ہو گیا ہے

0
108