| بھلی لگتی تھیں پیار کی باتیں |
| رنگ خُوشبو بہار کی باتیں |
| ایک ہی شخص سے تھیں وابستہ |
| بے قراری، قرار کی باتیں |
| گر سرِ راہ بھی ملا کوئی |
| تو فقط کوئے یار کی باتیں |
| ہوش کب تھا ہمیں زمانے کا |
| بس اُسی طرحدار کی باتیں |
| کہاں کوئی سمجھ سکا لیکن |
| دِلِ بے اختیار کی باتیں |
| وا لبِ گُل کبھی ہوئے ہی نہ تھے |
| سہتے تھے خار خار کی باتیں |
| نہ سُنی تیری پر اب اے ناصح |
| سنتے ہیں غم گُسار کی باتیں |
| یاد آئیں نہ جانے کیوں زاہد |
| بے وجہ اضطرار کی باتیں |
معلومات