چل چلائو کے اب آثار نظر آتے ہیں
حضرتِ دِل ہیں کہ بیمار نظر آتے ہیں
دست بردار ہوں میں اپنے سبھی خوابوں سے
کیوں تِرے ہاتھ میں ہتھیار نظر آتے ہیں
کٹ گئے جیسے بھی دِن، سمجھو کہ آساں ہو گئے
رہ گئے جتنے، وہ دُشوار نظر آتے ہیں
ہے مِری آنکھ پہ قسمت کا کوئی تو پہرا
راستے بھی مُجھے دِیوار نظر آتے ہیں
دو قدم ساتھ چلے کوئی تو احساں جانو
ورنہ تو اب کہاں غم خوار نظر آتے ہیں
دامنِ چاک میں گُل کیسے سنبھالے جاتے
جو کبھی یار تھے، بیزار نظر آتے ہیں
دیر تک مجھ سے نبھا تو نہ سکے گی زاہد
زندگی کے جو اب اطوار نظر آتے ہیں

0
107