| اے غمِ زندگی کوئی لمحہ اُدھار دے |
| پل بھر کو ہی سہی کوئی راہِ فرار دے |
| گو عمر بھر نبھائی ہے رسمِ وفا، مگر |
| اب بے وفائی کا بھی مجھے اختیار دے |
| پھرتے ہیں ننگے پائوں تپے ریگ زار میں |
| جو ہو سکے تو ایک شجر سایہ دار دے |
| تھکنے لگا ہوں اُٹھا کے اپنی ہی لاش خود |
| یہ بوجھ کاندھوں سے مِرے اب تو اُتار دے |
| مُدت سے بے قراری نے سونے نہیں دیا |
| اِس بے قراری کو کبھی کچھ تو قرار دے |
| میں زندہ بھی ہوں یا نہیں زاہد خبر نہیں |
| اب زندگی کا کچھ تو مجھے اعتبار دے |
معلومات