اے غمِ زندگی کوئی لمحہ اُدھار دے
پل بھر کو ہی سہی کوئی راہِ فرار دے
گو عمر بھر نبھائی ہے رسمِ وفا، مگر
اب بے وفائی کا بھی مجھے اختیار دے
پھرتے ہیں ننگے پائوں تپے ریگ زار میں
جو ہو سکے تو ایک شجر سایہ دار دے
تھکنے لگا ہوں اُٹھا کے اپنی ہی لاش خود
یہ بوجھ کاندھوں سے مِرے اب تو اُتار دے
مُدت سے بے قراری نے سونے نہیں دیا
اِس بے قراری کو کبھی کچھ تو قرار دے
میں زندہ بھی ہوں یا نہیں زاہد خبر نہیں
اب زندگی کا کچھ تو مجھے اعتبار دے

0
341