زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان کو دو مختلف راستوں یا فیصلوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دونوں راہوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ کسی ایک راہ کو پورے دل سے اپنا پاتے ہیں، نہ ہی دوسری کو مکمل طور پر ترک کر پاتے ہیں۔ اس تذبذب کی کیفیت ان کی زندگی میں الجھن، بے یقینی اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ |
مثال کے طور پر، ایک طالبعلم جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بے جا تفریح میں بھی وقت ضائع کرتا ہے، وہ نہ علم حاصل کر پاتا ہے نہ ہی تفریح سے سکون پا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی شخص ذاتی زندگی اور کیریئر کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے دونوں میں الجھا رہے، تو اکثر دونوں محاذوں پر ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔ |
زندگی میں کامیابی کے لیے واضح فیصلے، مضبوط ارادہ اور یکسوئی ناگزیر ہیں۔ دو کشتیوں کے سوار اکثر ڈوب جاتے ہیں، اسی طرح دو راستوں پر چلنے والے اکثر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس لیے لازم ہے کہ انسان درست سمت کا تعین کرے اور پوری قوت کے ساتھ اس پر گامزن ہو۔ یہی رویہ اسے کامیابی کی راہ پر لے جا سکتا ہے، اور زندگی میں اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔ |
زندگی میں چاہنے والے بے شمار مل جاتے ہیں۔ ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی اظہارِ محبت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی لفظوں سے، کوئی انداز سے، تو کوئی رویوں سے اپنا دعویِٰ عشق پیش کرتا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ ان سب میں سے کون سچا ہے؟ کون وہ ہے جو صرف چاہنے کا دعویٰ نہیں، بلکہ نبھانے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے؟ |
"ہزار چاہنے والوں سے ایک نبھانے والا بہتر ہوتا ہے!" یہ جملہ محض ایک قول نہیں، بلکہ ایک پوری زندگی کا تجربہ سموئے ہوئے ہے۔ چاہنے والے تو موسموں کی طرح آتے اور جاتے رہتے ہیں، مگر نبھانے والا وہ ہوتا ہے جو ہر موسم میں ساتھ نبھاتا ہے؛ جو دکھ میں ڈھال بنتا ہے اور خوشی میں سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے۔ |
نبھانے والا وہ نہیں جو ہر وقت بات کرے، بلکہ وہ ہے جو خاموشی میں بھی ساتھ دے۔ وہ ہر لڑائی کے بعد خفا ہونے کے بجائے تعلق کو بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی دھول میں جب سب رشتے مدھم ہو جائیں، تب بھی جو ساتھ رہے، وہی اصل چاہنے والا ہے۔ |
چاہنے والے تمہیں خواب دکھاتے ہیں؛ نبھانے والا تمہارے ساتھ تعبیر کی راہوں پر چلتا ہے۔ اس لیے، ہزار چاہنے والوں کے ہجوم میں ایک نبھانے والے کو پہچاننا سیکھو — کیونکہ اصل ساتھ وہی دیتا ہے، جو آخر تک ساتھ نبھاتا ہے۔ |
انسان اکثر اپنے غصے اور جذبات کے ساتھ اتنا گہرا تعلق قائم کر لیتا ہے کہ وہ انہیں اپنی شناخت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ وہ اپنے احساسات میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ کسی دوسرے کی بات، احساس یا ذات کو اپنی دنیا میں شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔ یوں گویا اس کی ذات ایک بند دائرہ بن جاتی ہے، جہاں صرف اس کے اپنے زخم، جذبات اور غصہ ہی گونجتے ہیں، اور باہر سے آنے والی ہر آواز اس شور میں دب کر رہ جاتی ہے۔ |
تحریر: ندیم احمد زیدی |
زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان کو دو مختلف راستوں یا فیصلوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دونوں راہوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ کسی ایک راہ کو پورے دل سے اپنا پاتے ہیں، نہ ہی دوسری کو مکمل طور پر ترک کر پاتے ہیں۔ اس تذبذب کی کیفیت ان کی زندگی میں الجھن، بے یقینی اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ |
مثال کے طور پر، ایک طالب علم جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بے جا تفریح میں بھی وقت ضائع کرتا ہے، وہ نہ علم حاصل کر پاتا ہے نہ ہی تفریح سے سکون پا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی شخص ذاتی زندگی اور کیریئر کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے دونوں میں الجھا رہے، تو اکثر دونوں محاذوں پر ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔ |
زندگی میں کامیابی کے لیے واضح فیصلے، مضبوط ارادہ اور یکسوئی ناگزیر ہیں۔ دو کشتیوں کے سوار اکثر ڈوب جاتے ہیں، اسی طرح دو راستوں پر چلنے والے اکثر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس لیے لازم ہے کہ انسان درست سمت کا تعین کرے اور پوری قوت کے ساتھ اس پر گامزن ہو۔ یہی رویہ اسے کامیابی کی راہ پر لے جا سکتا ہے، اور زندگی میں اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔ |
ندیم احمد زیدی |
محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے، جو دل کی گہرائیوں سے جنم لیتا ہے۔ یہ نہ تو قید کا نام ہے، نہ زبردستی کا، بلکہ محبت تو وہ جذبہ ہے جو دوسروں کی خوشی کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتا ہے۔ سچی محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ جسے چاہا جائے، اُسے آزاد چھوڑ دینا ہی اصل محبت کی پہچان ہے۔ کیونکہ محبت اگر حقیقی ہو، تو وہ بندھنوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ محبت ایک خاموش عہد ہے جو نہ زبان مانگتا ہے، نہ ثبوت؛ یہ دل سے دل تک کا سفر ہے جو وقت اور فاصلوں کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ |
اکثر لوگ محبت کو حاصل کرنے، قابو پانے یا کسی کو اپنی ملکیت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محبت میں گرفت ہونی چاہیے، روک ہونی چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو محبت قید میں ہو، وہ محبت نہیں، محض انا کی تسکین ہوتی ہے۔ سچی محبت میں طاقت نہیں، عاجزی ہوتی ہے؛ ضد نہیں، صبر ہوتا ہے؛ اور سب سے بڑھ کر، اختیار نہیں بلکہ اختیار سے دستبرداری ہوتی ہے۔ سچا محب اپنے محبوب کی آزادی میں ہی اپنی خوشی تلاش کرتا ہے۔ |
جب کوئی شخص اپنے چاہنے والے کو آزاد چھوڑ دیتا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ محبت نہیں کرتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ محبت پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دل میں سچائی ہے، تو محبت خود ہی راستہ بنا لے گی، وہ لوٹ آئے گی، کسی زنجیر کی محتاج نہیں ہوگی۔ محبت کبھی زبردستی نہیں کی جاتی، نہ کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے وقت پر پنپتی ہے، اور اپنے وقت پر لوٹتی ہے۔ |
محبت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ انسان کو خود سے بلند کر دیتی ہے۔ یہ خودغرضی سے نکال کر بے لوثی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ دوسرے کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے، تو وہ محبت نہیں بلکہ اپنی خواہش کا غلام ہے۔ محبت تو وہ ہے جو دوسروں کو اُن کی مرضی کے ساتھ جینے دے، اُن کے خوابوں کو پر دے، اور اگر قسمت میں ساتھ ہو، تو وہ خود چل کر آ جاتے ہیں۔ |
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محبت میں جبر نہیں، صبر ہے۔ محبت میں قابو پانے کا نہیں، آزاد کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ سچی محبت اگر ہو، تو وہ چاہے جتنی دور ہو، دل کے قریب ہی رہتی ہے۔ |
تحریر ندیم احمد زیدی |
زندگی دراصل ایک رواں دواں جُوئے خرام ہے، جس کی موجیں انسان کو وقتاً فوقتاً مختلف نوع کے رشتوں، تعلقات، اور جذبات سے ہمکنار کرتی رہتی ہیں۔ ہر رشتہ اپنی ماہیت میں محبت، خلوص، اور ایثار کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ انسان اکثر اپنی تنگ نظری، خود پسندی، اور بے جا ضد کی بھینٹ ان لطیف بندھنوں کو چڑھا دیتا ہے۔ |
رشتوں کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا ایک سلیقہ ہے جو ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا۔ وہ اس نکتے کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ رشتے دلوں کی قربت سے استوار ہوتے ہیں، نہ کہ انا کی تنگ گلیوں سے۔ یہی سبب ہے کہ عصرِ حاضر میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ ذرا سی کدورت، ایک ناتمام گفتگو، یا معمولی اختلاف کی بنا پر عشروں پرانے تعلقات کو یکایک خیر باد کہہ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد اور انانیت کا دامن نہیں چھوڑتے۔ |
"لوگ رشتے چھوڑ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد نہیں" — یہ فقط ایک جملہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک نہایت تلخ مگر سچائی پر مبنی تصویر ہے۔ ضد، درحقیقت، انا کا وہ جامد اور سرد پہلو ہے جو انسان کے دل کو مروّت، نرمی، اور وسعتِ ظرف سے خالی کر دیتا ہے۔ ایسا شخص معذرت کو توہین، صلح کو کمزوری، اور جھکنے کو شکست تصور کرتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ |
وہ یہ نہ جانتا ہے کہ رشتے ایک بار چھوٹ جائیں تو وہ اپنی اصل شکل میں کبھی بحال نہیں ہو سکتے۔ وقت کا گزر جانا، الفاظ کا زخم بن جانا، اور رویوں کا کھردرا پن—یہ سب وہ اسباب ہیں جو کسی بھی پائیدار تعلق کو نیست و نابود کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ انسان کا اصل حسن و جمال اسی میں پنہاں ہے کہ وہ وقتِ نزاع اپنی انا کو ترک کر کے محبت کا دامن تھام لے، اور جھکنے کو ہنر جانے۔ |
آخرِ کار یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص ضد کو خیر باد کہہ دے، وہی حقیقی معنوں میں رشتوں کی بازی جیتتا ہے۔ کیونکہ رشتے قوتِ بازو سے نہیں، بلکہ وسعتِ دل سے سنوارے جاتے ہیں۔ ضد تو فقط تنگ ظرف لوگوں کا ہتھیار ہے، جبکہ بڑے دل والے ہمیشہ صلح و درگزر کو شعار بناتے ہیں۔ پس، اگر زندگی کی ناؤ کو رشتوں کے ساحل تک بحفاظت پہنچانا ہے تو ضد کے پتھر دل سے اترنا سیکھنا ہو گا۔ |