Circle Image

ندیم احمد زیدی

@nadeemahmadz

nadeeahmadz

عشق کا خمار مجھ پر بڑھنے لگا ہے
دل میں ایک خواب سا پھر بڑھنے لگا ہے
اس کی یاد ہر گھڑی میں چھا گئی ہے
صبر کا دیا بھی کم تر بڑھنے لگا ہے
دیکھ کر نگاہِ نازک کی حرارت
درد دل کے اندر اندر بڑھنے لگا ہے

0
3
یہ شام، چاند، یہ کہکشاں ملیں گے تمہیں
مگر ہمارے سے کچھ رازداں ملیں گے تمہیں
ہے دل کی بات ابھی لب پہ آ نہیں پائی
سو چند لفظ ہی نیم زباں ملیں گے تمہیں
نہ ہم سے بات کرو چاندنی کی اب اتنی
کہ دُھوپ، سایہ، کئی امتحاں ملیں گے تمہیں

0
1
"میں نے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے،
عادت بنا کر وہ تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔
جنگل، سنسار، اور یہ راہیں سب گواہ ہیں،
کہ وفا کے وعدے اکثر راکھ ہو جاتے ہیں۔

0
3
زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان کو دو مختلف راستوں یا فیصلوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دونوں راہوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ کسی ایک راہ کو پورے دل سے اپنا پاتے ہیں، نہ ہی دوسری کو مکمل طور پر ترک کر پاتے ہیں۔ اس تذبذب کی کیفیت ان کی زندگی میں الجھن، بے یقینی اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک طالبعلم جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بے جا تفریح میں بھی وقت ضائع کرتا ہے، وہ نہ علم حاصل کر پاتا ہے نہ ہی تفریح سے سکون پا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی شخص ذاتی زندگی اور کیریئر کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے دونوں میں الجھا رہے، تو اکثر دونوں محاذوں پر ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔
زندگی میں کامیابی کے لیے واضح فیصلے، مضبوط ارادہ اور یکسوئی ناگزیر ہیں۔ دو کشتیوں کے سوار اکثر ڈوب جاتے ہیں، اسی طرح دو راستوں پر چلنے والے اکثر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس لیے لازم ہے کہ انسان درست سمت کا تعین کرے اور پوری قوت کے ساتھ اس پر گامزن ہو۔ یہی رویہ اسے کامیابی کی راہ پر لے جا سکتا ہے، اور زندگی میں اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔

0
3
جانے کب ہوگی جدائی کی عدت پوری
یاد کی شب میں اُترتی ہے وحشت پوری
کتنے وعدے تھے، مگر تم نے نبھائے کب ہیں
رہ گئی دل کی تمنا، نہ حسرت پوری
میرے اشکوں نے جلایا ہے چراغِ غم کا
کیا تمہیں دکھتی نہیں، یہ ہے حقیقت پوری

0
3
دل کی باتیں، آنکھ کی ہر خامشی میں چھپ گئیں
لفظ کہنے کی تمنا، خواہشی میں چھپ گئیں
خواب سب تعبیر کے رستے میں بکھرے رہ گئے
جو دعائیں ہم نے مانگیں، مصلحت کی روشنی میں چھپ گئیں
کون جانے کس جگہ پر لمس کی گرمی ملے
بات جو دل سے نکلتی تھی، وہی بے مہر سی میں چھپ گئیں

0
3
زندگی میں چاہنے والے بے شمار مل جاتے ہیں۔ ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی اظہارِ محبت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی لفظوں سے، کوئی انداز سے، تو کوئی رویوں سے اپنا دعویِٰ عشق پیش کرتا ہے؛ مگر سوال یہ ہے کہ ان سب میں سے کون سچا ہے؟ کون وہ ہے جو صرف چاہنے کا دعویٰ نہیں، بلکہ نبھانے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے؟
"ہزار چاہنے والوں سے ایک نبھانے والا بہتر ہوتا ہے!" یہ جملہ محض ایک قول نہیں، بلکہ ایک پوری زندگی کا تجربہ سموئے ہوئے ہے۔ چاہنے والے تو موسموں کی طرح آتے اور جاتے رہتے ہیں، مگر نبھانے والا وہ ہوتا ہے جو ہر موسم میں ساتھ نبھاتا ہے؛ جو دکھ میں ڈھال بنتا ہے اور خوشی میں سائے کی طرح ساتھ رہتا ہے۔
نبھانے والا وہ نہیں جو ہر وقت بات کرے، بلکہ وہ ہے جو خاموشی میں بھی ساتھ دے۔ وہ ہر لڑائی کے بعد خفا ہونے کے بجائے تعلق کو بچانے کی کوشش کرے۔ وقت کی دھول میں جب سب رشتے مدھم ہو جائیں، تب بھی جو ساتھ رہے، وہی اصل چاہنے والا ہے۔
چاہنے والے تمہیں خواب دکھاتے ہیں؛ نبھانے والا تمہارے ساتھ تعبیر کی راہوں پر چلتا ہے۔ اس لیے، ہزار چاہنے والوں کے ہجوم میں ایک نبھانے والے کو پہچاننا سیکھو — کیونکہ اصل ساتھ وہی دیتا ہے، جو آخر تک ساتھ نبھاتا ہے۔

0
3
میرا جو مشاہدہ ہے کسی انسان کا نشہ
پھیلتا جا رہا ہے دل میں ہر اک جان کا نشہ
آنکھوں میں ٹھہر گیا ہے وہ مہربان کا نشہ
باتوں میں چھپ گیا ہے کسی لطفِ عام کا نشہ
خوشبو میں گھل گیا ہے کسی گلفشان کا نشہ
دھڑکن میں بس گیا ہے تری پہچان کا نشہ

0
4
انسان اکثر اپنے غصے اور جذبات کے ساتھ اتنا گہرا تعلق قائم کر لیتا ہے کہ وہ انہیں اپنی شناخت کا حصہ بنا لیتا ہے۔ وہ اپنے احساسات میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ کسی دوسرے کی بات، احساس یا ذات کو اپنی دنیا میں شامل کرنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتا۔ یوں گویا اس کی ذات ایک بند دائرہ بن جاتی ہے، جہاں صرف اس کے اپنے زخم، جذبات اور غصہ ہی گونجتے ہیں، اور باہر سے آنے والی ہر آواز اس شور میں دب کر رہ جاتی ہے۔

0
6
تحریر ندیم احمد زیدی
پہلی دوست، جو بچپن کی ہنسی میں شریک ہوئی؛
پہلی استاد، جس نے لفظوں سے پہلے جذبوں کو سکھایا؛
پہلی محبت، جو بغیر کسی شرط کے دل میں بسی؛
پہلی درسگاہ، جس کی گود نے علم سے پہلے امن دیا؛
پہلا تحفظ، جو آغوش میں ہر خوف کو پگھلا دیتا؛

0
4
ہمیں ہے یقیں یہ جہان، ہم سبھی ایک ہیں
ہے دل میں فقط مہربان، ہم سبھی ایک ہیں
نہ مذہب کا جھگڑا رہے، نہ کوئی درمیاں
بس انسان ہو ہر مکان، ہم سبھی ایک ہیں
ہو بستی کوئی یا نگر، ہو پہاڑ و چمن
ہے اک سرزمیں کی پہچان، ہم سبھی ایک ہیں

0
3
یہ شام، چاند، یہ کہکشاں ملیں گے تمہیں
مگر ہمارے سے کچھ رازداں ملیں گے تمہیں
ہے دل کی بات ابھی لب پہ آ نہیں پائی
سو چند لفظ ہی نیم زباں ملیں گے تمہیں
نہ ہم سے بات کرو چاندنی کی اب اتنی
کہ دُھوپ، سایہ، کئی امتحاں ملیں گے تمہیں

0
3
"میں نے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے،
عادت بنا کر وہ تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔
جنگل، سنسار، اور یہ راہیں سب گواہ ہیں،
کہ وفا کے وعدے اکثر راکھ ہو جاتے ہیں۔"

0
4
تحریر: ندیم احمد زیدی
زندگی میں اکثر ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان کو دو مختلف راستوں یا فیصلوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور دونوں راہوں کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ کسی ایک راہ کو پورے دل سے اپنا پاتے ہیں، نہ ہی دوسری کو مکمل طور پر ترک کر پاتے ہیں۔ اس تذبذب کی کیفیت ان کی زندگی میں الجھن، بے یقینی اور ناکامی کا باعث بنتی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک طالب علم جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بے جا تفریح میں بھی وقت ضائع کرتا ہے، وہ نہ علم حاصل کر پاتا ہے نہ ہی تفریح سے سکون پا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی شخص ذاتی زندگی اور کیریئر کے درمیان توازن قائم کرنے کے بجائے دونوں میں الجھا رہے، تو اکثر دونوں محاذوں پر ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے۔
زندگی میں کامیابی کے لیے واضح فیصلے، مضبوط ارادہ اور یکسوئی ناگزیر ہیں۔ دو کشتیوں کے سوار اکثر ڈوب جاتے ہیں، اسی طرح دو راستوں پر چلنے والے اکثر اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس لیے لازم ہے کہ انسان درست سمت کا تعین کرے اور پوری قوت کے ساتھ اس پر گامزن ہو۔ یہی رویہ اسے کامیابی کی راہ پر لے جا سکتا ہے، اور زندگی میں اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے۔

0
3
پاکستان زندہ ہے، پاکستان زندہ باد
نعرہ ہے تکبیر کا، ہر دل میں ہے فریاد
دشمن کے آگے اب، ہم سر کو نہ جھکائیں
باطل سے ٹکرا کے، منزل کو ہم پائیں
بچّہ ہو یا بوڑھا، سب میں ہے یہ جوش
حق کی صدا لے کر، نکلے ہر ایک روش

0
4
تحریر: ندیم احمد زیدی
دنیا کے رنگین مناظر، چمکتے چہرے اور دلکش لہجے بظاہر کسی بھی رشتے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں، مگر جب بات دیرپا اور سچے رشتے کی ہو تو صرف خوبصورتی کافی نہیں ہوتی۔ ایک پائیدار اور مضبوط رشتہ صرف وفاداری کے سہارے قائم رہتا ہے۔ خوبصورتی وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتی ہے، مگر وفاداری ایک ایسا جوہر ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید نکھرتا ہے، مضبوط ہوتا ہے اور رشتے کو اصل معنوں میں خوبصورت بناتا ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ دلکش چیزوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ہمیں چہرے کی کشش، بول چال کی نرمی اور ظاہری حسن بہت متاثر کرتا ہے۔ یہی چیزیں ہمیں کسی کے قریب لے جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وقت گزرتا ہے، ان ظاہری چیزوں کی چمک دمک کم ہونے لگتی ہے۔ تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ رشتہ اصل میں کس بنیاد پر کھڑا تھا۔ اگر بنیاد وفاداری پر تھی، تو وہ رشتہ وقت کے تھپیڑوں میں بھی قائم رہتا ہے۔ لیکن اگر صرف خوبصورتی پر تھا، تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتا ہے، جو پہلی آندھی میں گر جاتا ہے۔
وفاداری صرف جسمانی تعلق کا نام نہیں، یہ دل و دماغ کی ہم آہنگی، احساس کی سچائی، اور موجودگی کی غیر مشروطی کا نام ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو فاصلے کو مٹاتی ہے، غلط فہمیوں کو دور کرتی ہے، اور مصیبت کے وقت ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہے۔ وفاداری کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے رشتے کو دوسروں کی نظروں سے نہیں، بلکہ اپنے دل کی گہرائی سے دیکھیں۔ ہم دوسروں کی چمک میں اپنے پرانے رشتوں کو نہ بھولیں، نہ نظر انداز کریں۔
آج کے دور میں، جہاں سوشل میڈیا نے ہماری ترجیحات بدل دی ہیں، ہم ظاہری خوبصورتی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ جو نظر آ رہا ہے وہی اصل ہے۔ مگر اصل وہ ہے جو نظر نہیں آتا، جو دل کے اندر بسا ہوتا ہے۔ کسی کی آنکھوں میں سچائی، باتوں میں خلوص اور عمل میں وفاداری ہو تو وہ شخص لاکھ سادہ ہو، لیکن اس کے ساتھ جڑا رشتہ دنیا کا سب سے حسین رشتہ ہوتا ہے۔
رشتوں میں خوبصورتی ہو تو اچھی بات ہے، لیکن اگر وفاداری نہ ہو تو وہ خوبصورتی جلد ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔ ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خوبصورتی وقتی ہے، لیکن وفاداری دائمی ہے۔ ایک وفادار انسان نہ صرف رشتے کو سنوار دیتا ہے، بلکہ ہماری زندگی کو سکون سے بھر دیتا ہے۔

0
5
ندیم احمد زیدی
زیدی کو ہمیشہ یہی لگا کہ وہ شہلا کے لیے خاص ہے۔
شہلا کی مسکراہٹ، اُس کی نرم آواز، اور وہ انداز جس سے وہ زیدی کو مخاطب کرتی تھی—یہ سب کچھ زیدی کو یقین دلاتے رہے کہ وہ شہلا کے دل کے قریب ہے۔ ہر ملاقات، ہر فون کال، ہر چھوٹی سی بات پر توجہ… زیدی کے لیے یہ سب بےحد قیمتی تھا۔
وہ گھنٹوں چائے کے کپ کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ شہلا پرانی فلموں کے گانے گنگناتی، اور زیدی خاموشی سے اُسے دیکھتا رہتا، جیسے وقت تھم جائے اور یہ لمحہ کبھی ختم نہ ہو۔ شہلا اکثر کہتی:
"زیدی، تمہارے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔"
زیدی نے دل ہی دل میں یہ جملہ اپنے لیے ایک سند سمجھ لیا۔ اُسے لگا کہ محبت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں، اور وہ شہلا کی زندگی کا وہ "خاص" شخص ہے جس کے بغیر وہ مکمل نہیں۔

0
3
تحریر: ندیم احمد زیدی
تاریخ: 05 جون 2021
رات کی تنہائی میں وہ قبرستان کی خشک مٹی پر بیٹھا تھا، جہاں چاندنی بھی اداس لگ رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک پرانا خط تھا—زرد کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھی تحریر۔ وہ تحریر جو اُس نے کبھی پڑھی ہی نہ تھی، جو برسوں پہلے کسی دلِ شکستہ نے لکھ کر بھیج دی تھی، پر جواب نہ آیا۔
"تم ہمیشہ بے پرواہ نہیں رہو گے…" الفاظ اُس کے دل میں چبھنے لگے۔ اب اسے ہر سطر کا مفہوم سمجھ آ رہا تھا، ہر حرف کی تپش دل میں محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جسے کبھی پاگل پن سمجھتا تھا، اب اسے محبت کا آخری اظہار لگ رہا تھا۔
قبر کے کتبے پر ایک نام لکھا تھا—وہی نام جو کبھی اُس کی زندگی میں ایک دھن بن کر گونجتا تھا، پر جسے اُس نے وقت کی گرد میں دفن کر دیا تھا۔ آج اُسی نام کے نیچے تاریخِ وفات لکھی تھی، اور وہ تاریخ… وہ تاریخ اُس دن سے کچھ دن پہلے کی تھی، جب اُسے پہلی بار دل میں خلش محسوس ہوئی تھی۔
"تم ہمیں یاد کرو گے… پر تب ہم مٹی ہو چکے ہوں گے۔"

0
4
ندیم احمد زیدی
محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے، جو دل کی گہرائیوں سے جنم لیتا ہے۔ یہ نہ تو قید کا نام ہے، نہ زبردستی کا، بلکہ محبت تو وہ جذبہ ہے جو دوسروں کی خوشی کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتا ہے۔ سچی محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ جسے چاہا جائے، اُسے آزاد چھوڑ دینا ہی اصل محبت کی پہچان ہے۔ کیونکہ محبت اگر حقیقی ہو، تو وہ بندھنوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ محبت ایک خاموش عہد ہے جو نہ زبان مانگتا ہے، نہ ثبوت؛ یہ دل سے دل تک کا سفر ہے جو وقت اور فاصلوں کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔
اکثر لوگ محبت کو حاصل کرنے، قابو پانے یا کسی کو اپنی ملکیت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محبت میں گرفت ہونی چاہیے، روک ہونی چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو محبت قید میں ہو، وہ محبت نہیں، محض انا کی تسکین ہوتی ہے۔ سچی محبت میں طاقت نہیں، عاجزی ہوتی ہے؛ ضد نہیں، صبر ہوتا ہے؛ اور سب سے بڑھ کر، اختیار نہیں بلکہ اختیار سے دستبرداری ہوتی ہے۔ سچا محب اپنے محبوب کی آزادی میں ہی اپنی خوشی تلاش کرتا ہے۔
جب کوئی شخص اپنے چاہنے والے کو آزاد چھوڑ دیتا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ محبت نہیں کرتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ محبت پر مکمل یقین رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دل میں سچائی ہے، تو محبت خود ہی راستہ بنا لے گی، وہ لوٹ آئے گی، کسی زنجیر کی محتاج نہیں ہوگی۔ محبت کبھی زبردستی نہیں کی جاتی، نہ کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے وقت پر پنپتی ہے، اور اپنے وقت پر لوٹتی ہے۔
محبت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ انسان کو خود سے بلند کر دیتی ہے۔ یہ خودغرضی سے نکال کر بے لوثی کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ دوسرے کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے، تو وہ محبت نہیں بلکہ اپنی خواہش کا غلام ہے۔ محبت تو وہ ہے جو دوسروں کو اُن کی مرضی کے ساتھ جینے دے، اُن کے خوابوں کو پر دے، اور اگر قسمت میں ساتھ ہو، تو وہ خود چل کر آ جاتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ محبت میں جبر نہیں، صبر ہے۔ محبت میں قابو پانے کا نہیں، آزاد کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ سچی محبت اگر ہو، تو وہ چاہے جتنی دور ہو، دل کے قریب ہی رہتی ہے۔

0
5
تحریر: ندیم احمد زیدی
زندگی کی دوڑ بھاگ، شور شرابے اور مصروفیات کے ہنگاموں میں، کبھی کبھار کوئی ایسا لمحہ آ جاتا ہے جو وقت کو روک دیتا ہے، خیالات کو تھام لیتا ہے، اور دل کو چھو جاتا ہے۔ وہ لمحہ اکثر تم ہوتے ہو۔
تمہارا چند لمحوں کے لیے مجھ سے بات کرنا، میرے دن کا سب سے خوبصورت واقعہ بن جاتا ہے۔ جیسے کائنات کے شور میں کوئی ہلکی سی موسیقی سنائی دے جائے، جیسے الجھے خیالوں میں یکدم سکون اتر آئے۔ تمہاری آواز، تمہارے الفاظ، جیسے کسی پیاسے صحرا میں پہلی بارش کا برسنا، جو دل کی بنجر زمین کو سرسبز کر دے۔
جب تم بات کرتے ہو، تو لگتا ہے جیسے سب کچھ رک گیا ہو۔ تمہارے الفاظ میرے اندر کہیں ٹھہر جاتے ہیں، اور میں کچھ پل کے لیے سب کچھ بھول کر صرف تم ہو جاتا ہوں۔ تمہاری باتوں کا جادو میرے وجود پر چھا جاتا ہے۔ وہ لمحے، جو شاید تمہارے لیے عام ہوں، میرے لیے خاص بن جاتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے تمہاری زندگی میں بے شمار مصروفیات ہیں، ہزاروں باتیں ہیں، کئی لوگ ہیں۔ لیکن پھر بھی جب تم چند لمحے میرے لیے نکالتے ہو، وہ لمحے میرے لیے زندگی بن جاتے ہیں۔ میں ان لمحوں کو دل کے کسی نرم گوشے میں سنبھال کر رکھ لیتا ہوں، جیسے کوئی نایاب خزانہ۔
یہی لمحے میرے دن کی تھکن کو مٹا دیتے ہیں، راتوں کی اداسی کو سمیٹ لیتے ہیں۔ یہی مختصر سی گفتگو میرے وجود کو مکمل کرتی ہے۔ تمہاری توجہ، تمہاری موجودگی، میرے لمحوں کو سنوار دیتی ہے۔ تمہارے چند بول، میری دنیا کو روشنی سے بھر دیتے ہیں۔

0
4
تحریر ندیم احمد زیدی
زندگی دراصل ایک رواں دواں جُوئے خرام ہے، جس کی موجیں انسان کو وقتاً فوقتاً مختلف نوع کے رشتوں، تعلقات، اور جذبات سے ہمکنار کرتی رہتی ہیں۔ ہر رشتہ اپنی ماہیت میں محبت، خلوص، اور ایثار کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔ مگر صد افسوس کہ انسان اکثر اپنی تنگ نظری، خود پسندی، اور بے جا ضد کی بھینٹ ان لطیف بندھنوں کو چڑھا دیتا ہے۔
رشتوں کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا ایک سلیقہ ہے جو ہر شخص کے حصے میں نہیں آتا۔ وہ اس نکتے کو فراموش کر بیٹھتا ہے کہ رشتے دلوں کی قربت سے استوار ہوتے ہیں، نہ کہ انا کی تنگ گلیوں سے۔ یہی سبب ہے کہ عصرِ حاضر میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ لوگ ذرا سی کدورت، ایک ناتمام گفتگو، یا معمولی اختلاف کی بنا پر عشروں پرانے تعلقات کو یکایک خیر باد کہہ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد اور انانیت کا دامن نہیں چھوڑتے۔
"لوگ رشتے چھوڑ دیتے ہیں، مگر اپنی ضد نہیں" — یہ فقط ایک جملہ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک نہایت تلخ مگر سچائی پر مبنی تصویر ہے۔ ضد، درحقیقت، انا کا وہ جامد اور سرد پہلو ہے جو انسان کے دل کو مروّت، نرمی، اور وسعتِ ظرف سے خالی کر دیتا ہے۔ ایسا شخص معذرت کو توہین، صلح کو کمزوری، اور جھکنے کو شکست تصور کرتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ یہ نہ جانتا ہے کہ رشتے ایک بار چھوٹ جائیں تو وہ اپنی اصل شکل میں کبھی بحال نہیں ہو سکتے۔ وقت کا گزر جانا، الفاظ کا زخم بن جانا، اور رویوں کا کھردرا پن—یہ سب وہ اسباب ہیں جو کسی بھی پائیدار تعلق کو نیست و نابود کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ انسان کا اصل حسن و جمال اسی میں پنہاں ہے کہ وہ وقتِ نزاع اپنی انا کو ترک کر کے محبت کا دامن تھام لے، اور جھکنے کو ہنر جانے۔
آخرِ کار یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص ضد کو خیر باد کہہ دے، وہی حقیقی معنوں میں رشتوں کی بازی جیتتا ہے۔ کیونکہ رشتے قوتِ بازو سے نہیں، بلکہ وسعتِ دل سے سنوارے جاتے ہیں۔ ضد تو فقط تنگ ظرف لوگوں کا ہتھیار ہے، جبکہ بڑے دل والے ہمیشہ صلح و درگزر کو شعار بناتے ہیں۔ پس، اگر زندگی کی ناؤ کو رشتوں کے ساحل تک بحفاظت پہنچانا ہے تو ضد کے پتھر دل سے اترنا سیکھنا ہو گا۔

0
6
تحریر: ندیم احمد زیدی
حسن اور وفا دو ایسے جذبے ہیں جو انسانی فطرت اور احساسات کا نہایت حسین مگر متضاد پہلو پیش کرتے ہیں۔ حسن عارضی ہے، پل بھر کا تماشا، جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے، دل کو بہلاتا ہے، مگر وقت کی گرد میں جلد ہی ماند پڑ جاتا ہے۔ اس کے برعکس وفا ایک دیرپا جذبہ ہے، ایک ایسا رشتہ جو وقت کی آزمائشوں میں پختہ ہوتا ہے اور عمر بھر دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔
یہاں "حسن تمام ہوا، یہاں وفا کا ساتھ ہے" کہہ کر زیدی نے حسن کی عارضیت اور وفا کی ابدیت کو ایک مختصر مگر بلیغ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ حسن کے ساتھ دل بہلتا ہے، مگر وفا کے ساتھ زندگی بسر ہوتی ہے۔ حسن نظروں کو لبھاتا ہے، وفا روح کو قرار دیتی ہے۔ حسن محفل کی زینت ہے، وفا تنہائی کی رفیق۔
کلاسیکی ادب میں بھی ہمیشہ وفا کو حسن پر ترجیح دی گئی ہے۔ لیلیٰ و مجنوں کی کہانی ہو، یا ہیر رانجھا کا قصہ، ان سب میں وفا وہ کسوٹی ہے جس پر عشق کو پرکھا جاتا ہے۔ حسن وقتی کشش رکھتا ہے، مگر وفا وہ ستون ہے جس پر سچے رشتے قائم رہتے ہیں۔
زندگی میں اگرچہ حسن کی جھلک دل لبھاتی ہے، مگر جس دل میں وفا ہو، وہی دل دوسروں کے دل میں گھر کر پاتا ہے۔ آخرکار، وقت حسن کو مٹا دیتا ہے، مگر وفا کو امر کر دیتا ہے۔ سو، جو وفا کے سنگ جیتے ہیں، وہی اصل حسن کے وارث ہوتے ہیں۔
یوں زیدی کا کہنا بجا ہے:

0
5
تلخی میں بھی ایک کیف ہے، جو صبر سے پہچانی جاتی ہے
محبت کی چائے وہی چکھے، جسے ہار جیت نہیں کھلتی
سچائی کا ذائقہ ہے اس میں، جھوٹوں کو یہ پھیکا لگتا ہے
جو دل سے جیتا ہے رشتوں کو، اس کی بات الگ ہی بنتی
نہ شکوہ، نہ گِلہ، نہ تمنا کوئی، بس چاہت کا دستور رہے
ایسی چائے کی ایک چسکی میں، کتنی باتیں کہی جا سکتی

0
3
میں جس کو چھوڑتا ہوں وہی امر ہو جاتا ہے
اس بار خود کو چھوڑوں گا، کیا ہو جاتا ہے
دلوں کو چیر دیتا ہے وہ لمحہ جدائی کا
کبھی جو زخم دیتا ہے، مرہم ہو جاتا ہے
نظر میں قید رکھتا ہوں خیالوں کی صدا کو
یہ خامشی بھی اکثر بہت کم گو جاتا ہے

0
3
تھکے ہوئے سے ہم، الجھی ہوئی سی زندگی
بکھرے ہوئے خیال، بگڑی ہوئی سی زندگی
یادوں کے بے شمار دُکھ، نیندوں کے کارواں
ٹوٹے ہوئے سے خواب، بیتی ہوئی سی زندگی
پلکوں پہ اوس بن کے جو ٹھہرے تھے کچھ سراب
بجھتی ہوئی سی شام، ڈوبی ہوئی سی زندگی

0
4
محنتوں کا صلہ، آج کا یہ ظہور ہے
ہر قدم پر جَلا، ایک نیا شعور ہے
جن کے ہاتھوں میں چالاکیاں نہ تھیں کبھی
پھر بھی اُن کی عطا، روشنی کا نور ہے
جن کے لہجے میں فقر، آنکھ میں وقار تھا
خاک میں بھی وہی، صاحبِ سرور ہے

0
3
دل کی ویرانی میں بھی کچھ روشنی باقی تو ہے
گرچہ تُو موجود اب میرے قریب و پاس نہیں ہے
وقت کی دیوار پر تصویریں دھندلا سی گئیں
پھر بھی خوابوں میں تری اک خامشی باقی تو ہے
زندگی کی رہگزر میں اب بھی چلتے ہیں قدم
چاہ میں تیری مگر وہ بے خودی باقی تو ہے

0
3
تصویراں ویکھ کے، میں یاداں وچ مٹی ہو گیاں
اک پل دے خواباں دے سائے وچ مٹی ہو گیاں
ساہواں وچ وسدے نغمے وی ہن چُپ چُپ رہ گئے
ساہاں دے وچکار صدیاں وچ مٹی ہو گیاں
اوہ ویلے جتھے سانجھ سی تے پیار دیاں گلاں
اوناں دی دہلیز تے، میں رازاں وچ مٹی ہو گیاں

0
6
دل کی ویرانی میں بھی کچھ روشنی باقی تو ہے
گرچہ تُو موجود اب میرے قریب و پاس نہیں ہے
وقت کی دیوار پر تصویریں دھندلا سی گئیں
پھر بھی خوابوں میں تری اک خامشی باقی تو ہے
زندگی کی رہگزر میں اب بھی چلتے ہیں قدم
چاہ میں تیری مگر وہ بے خودی باقی تو ہے

0
5
نہ روٹھے کوئی، نہ ٹوٹے کوئی، یہی دِل کا بہتر ہے
جو بچھڑا ہے، یاد بنے، نہ ہو بوجھ، یہ بہتر ہے
جو قسمت میں درد لکھے گئے، تو شکوہ نہ کر جاناں
یہی درد اگر ہو حرفِ غزل، تو بہتر ہے
محبت ہو، یا کہ ہجر کی راہ، رستے سب اپنے ہیں
کسی حال میں بھی خود سے نہ ہارے، یہ بہتر ہے

0
4
بیٹھا بیٹھا کھو جاتا ہوں تنہائی میں
مر جاتا ہوں اپنی ہی رسوائی میں

0
1
39
زیدی میرا حال نہ پوچھ
کنج گزریا وصال نہ پچھ
کنج گیا دلدار نہ پچھ
اتھرو رکدے نی یار نہ پوچھ
زیدی اج میں تھک گیا واں
کنج گزریا سال نہ پچھ

0
8
خدا ہم کو ایسی جدائی نہ دے
کہ دکھ کے سوا کچھ دکھائی نہ دے
گنہگار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ رہائی نہ دے
مرو آج اتنا کہ اس دور میں
صدا مرنے کی دندلائی نہ دے

0
29
ایسے چھپ کے نہ تم دیکھو مجھ کو
ہم سے پیار بھی ہو سکتا ہے تجھ کو

0
26
جو ٹوٹ گیا وہ جو سپنا تھا ہی نی
جو چھوڑ گیا وہ کبھی اپنا تھا ہی نی

0
27
ایک دکھ تو بھرنے دے اے زندگی
کون سا ہم بھاگ رے ہیں زندگی

0
40
زیدی در اپنا ہی بہتر
کسی کا در کب تک زیدی جاں

0
32
جو اتنا رو رہا ہے
کسی کو کھو رہا ہے

0
35
سب کہتے ہیں خیال رکھوں زیدی اپنا
آج یہ تو بتا دے کوئی کیسے رکھتے ہیں

0
48
کچھ منزل ہی دکھ بھری ہوتی ہے زیدی جی
جو ہم کو تنہا ہی طے کرنی ہوتی ہے

0
51
اس کی تصویر مل گئی مجھ کو
غم کی تعبیر مل گئی مجھ کو

0
41
یہ کسی اور کی محبت ہے
یہ جو لاہور کی محبت ہے

0
47
دسمبر کبھی ہم بھی تم پے فدا تھے
مگر اب تو رستے بھی ہم سے جدا ہیں

0
40
بہت دور سے لوٹا ہوں
ابھی کچھ ستم باقی ہیں

0
43
دکھ ملے سکھ ملے جو ملے
زندگی ایک دن پھر ملے

0
38
اس کو خواہش تھی کھونے کی
ہم کو عادت تھی رونے کی

0
45
اے خدا ہی بتا التجا کیا کرو
زندگی ہم سے ہم زندگی سے خفا

0
46
صبر کرتے صبر کرتے ہم تو صابر ہو گئے ہیں
ظلم کرتے ظلم کرتے وہ تو جابر ہو گئے ہیں

0
57