تحریر: ندیم احمد زیدی |
تاریخ: 05 جون 2021 |
رات کی تنہائی میں وہ قبرستان کی خشک مٹی پر بیٹھا تھا، جہاں چاندنی بھی اداس لگ رہی تھی۔ ہاتھ میں ایک پرانا خط تھا—زرد کاغذ پر سیاہ روشنائی سے لکھی تحریر۔ وہ تحریر جو اُس نے کبھی پڑھی ہی نہ تھی، جو برسوں پہلے کسی دلِ شکستہ نے لکھ کر بھیج دی تھی، پر جواب نہ آیا۔ |
"تم ہمیشہ بے پرواہ نہیں رہو گے…" الفاظ اُس کے دل میں چبھنے لگے۔ اب اسے ہر سطر کا مفہوم سمجھ آ رہا تھا، ہر حرف کی تپش دل میں محسوس ہو رہی تھی۔ وہ جسے کبھی پاگل پن سمجھتا تھا، اب اسے محبت کا آخری اظہار لگ رہا تھا۔ |
قبر کے کتبے پر ایک نام لکھا تھا—وہی نام جو کبھی اُس کی زندگی میں ایک دھن بن کر گونجتا تھا، پر جسے اُس نے وقت کی گرد میں دفن کر دیا تھا۔ آج اُسی نام کے نیچے تاریخِ وفات لکھی تھی، اور وہ تاریخ… وہ تاریخ اُس دن سے کچھ دن پہلے کی تھی، جب اُسے پہلی بار دل میں خلش محسوس ہوئی تھی۔ |
"تم ہمیں یاد کرو گے… پر تب ہم مٹی ہو چکے ہوں گے۔" |
آنکھوں سے بہتی نمی نے کاغذ کو گیلا کر دیا۔ اُس نے ہاتھ بڑھا کر قبر کی مٹی کو چھوا، جیسے کوئی بچھڑنے والے سے معافی مانگ رہا ہو۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ |
محبت اپنی تکمیل کے انتظار میں فنا ہو چکی تھی، اور وہ احساس… وہ صرف ایک قبر پر بیٹھے شخص کے دل کا بوجھ بن چکا تھا۔ |
شاید محبت کبھی مرتی نہیں، بس دیر ہو جاتی ہے… ہمیشہ بہت دیر۔ |
معلومات