میرا جو مشاہدہ ہے کسی انسان کا نشہ
پھیلتا جا رہا ہے دل میں ہر اک جان کا نشہ
آنکھوں میں ٹھہر گیا ہے وہ مہربان کا نشہ
باتوں میں چھپ گیا ہے کسی لطفِ عام کا نشہ
خوشبو میں گھل گیا ہے کسی گلفشان کا نشہ
دھڑکن میں بس گیا ہے تری پہچان کا نشہ
ملتی ہے تجھ سے نیند بھی اب مہربان کا نشہ
جاگا ہوں رات بھر میں تری تھپکیان کا نشہ
زیدی بھی اب گزر چکا ہے امتحان کا نشہ
باقی ہے بس تری ہنسی اور ارمان کا نشہ

0
4