میں جس کو چھوڑتا ہوں وہی امر ہو جاتا ہے |
اس بار خود کو چھوڑوں گا، کیا ہو جاتا ہے |
دلوں کو چیر دیتا ہے وہ لمحہ جدائی کا |
کبھی جو زخم دیتا ہے، مرہم ہو جاتا ہے |
نظر میں قید رکھتا ہوں خیالوں کی صدا کو |
یہ خامشی بھی اکثر بہت کم گو جاتا ہے |
جو چپ رہا تو دل نے کئی راز کھول ڈالے |
کبھی کبھی سکوت بھی محفل ہو جاتا ہے |
میں حرف حرف خود کو بکھرتا دیکھتا ہوں |
یہ خاک جسم کی اب تو آیت ہو جاتا ہے |
کبھی جو تُو نہ آئے تو کچھ فرق ہی نہ پڑے |
یہ ماننے میں بھی دل بہت کمزور جاتا ہے |
یہ بات زیدی اب نہ زمانہ بھلا سکے |
کہ دل جلے کا قصّہ بھی افسانہ ہو جاتا ہے |
معلومات