ندیم احمد زیدی |
زیدی کو ہمیشہ یہی لگا کہ وہ شہلا کے لیے خاص ہے۔ |
شہلا کی مسکراہٹ، اُس کی نرم آواز، اور وہ انداز جس سے وہ زیدی کو مخاطب کرتی تھی—یہ سب کچھ زیدی کو یقین دلاتے رہے کہ وہ شہلا کے دل کے قریب ہے۔ ہر ملاقات، ہر فون کال، ہر چھوٹی سی بات پر توجہ… زیدی کے لیے یہ سب بےحد قیمتی تھا۔ |
وہ گھنٹوں چائے کے کپ کے ساتھ بیٹھے رہتے۔ شہلا پرانی فلموں کے گانے گنگناتی، اور زیدی خاموشی سے اُسے دیکھتا رہتا، جیسے وقت تھم جائے اور یہ لمحہ کبھی ختم نہ ہو۔ شہلا اکثر کہتی: |
"زیدی، تمہارے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔" |
زیدی نے دل ہی دل میں یہ جملہ اپنے لیے ایک سند سمجھ لیا۔ اُسے لگا کہ محبت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں، اور وہ شہلا کی زندگی کا وہ "خاص" شخص ہے جس کے بغیر وہ مکمل نہیں۔ |
مگر وقت نے ایک اور ہی رخ دکھایا۔ |
کچھ ہی مہینوں بعد، شہلا کا رویہ بدلنے لگا۔ |
باتیں کم، پیغامات دیر سے، اور وہ نظروں کی چمک—اب جیسے مدھم ہونے لگی ہو۔ |
زیدی نے کئی بار پوچھا، "سب ٹھیک ہے؟" |
شہلا ہر بار مسکرا کر کہتی، "ہاں، بس تھوڑی مصروف ہوں۔" |
پھر ایک دن، اتفاقاً زیدی نے شہلا کو کسی اور کے ساتھ دیکھ لیا۔ |
وہی مسکراہٹ، وہی انداز، وہی نرمی—لیکن اب زیدی کے لیے نہیں تھی۔ |
زیدی کا دل ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔ سانس رُک گئی، مگر شکایت زبان تک نہ آئی۔ بس ایک بات دل میں گونجتی رہی: |
"کسی کے لیے خاص ہونے کی غلط فہمی نہ پالو... لوگ تمہیں پا کر بھی بہتر کی تلاش میں ہوتے ہیں۔" |
اس دن کے بعد زیدی نے خاص بننے کی تمنا چھوڑ دی، اور اپنی ذات سے دوستی کا سفر شروع کیا۔ |
ابتدا میں یہ سفر دشوار تھا—تنہائی، خاموشی، اور ٹوٹے خواب ساتھ تھے۔ لیکن دھیرے دھیرے زیدی نے خود کو سنوارنا شروع کیا۔ وہ زیادہ پڑھنے لگا، لکھنے لگا، اور پرانی نظموں میں اپنے زخموں کا مرہم تلاش کرنے لگا۔ |
دن ہفتوں میں بدلے، ہفتے مہینوں میں۔ |
زیدی اب ایک مختلف انسان بن چکا تھا—سنجیدہ، پُرسکون، اور خود پر مکمل بھروسہ رکھنے والا۔ |
پھر ایک دن، ایک تقریب میں اچانک شہلا سامنے آ گئی۔ |
وہ لمحہ عجیب سا تھا۔ شہلا نے نظریں ملائیں، ہلکی سی مسکراہٹ دی، اور کہا: |
"کیا حال ہے، زیدی؟" |
زیدی نے بھی مسکرا کر جواب دیا: |
"بہتر ہوں، کیونکہ اب میں اپنے لیے خاص ہوں۔" |
شہلا خاموش ہو گئی۔ کچھ لمحے اُسے دیکھتی رہی، شاید کچھ کہنا چاہا… مگر زیدی جا چکا تھا۔ |
اب وہ کسی اور کے لیے خاص بننے نہیں، خود سے محبت کرنے نکلا تھا۔ |
معلومات