تحریر: ندیم احمد زیدی
حسن اور وفا دو ایسے جذبے ہیں جو انسانی فطرت اور احساسات کا نہایت حسین مگر متضاد پہلو پیش کرتے ہیں۔ حسن عارضی ہے، پل بھر کا تماشا، جو آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے، دل کو بہلاتا ہے، مگر وقت کی گرد میں جلد ہی ماند پڑ جاتا ہے۔ اس کے برعکس وفا ایک دیرپا جذبہ ہے، ایک ایسا رشتہ جو وقت کی آزمائشوں میں پختہ ہوتا ہے اور عمر بھر دلوں کو جوڑے رکھتا ہے۔
یہاں "حسن تمام ہوا، یہاں وفا کا ساتھ ہے" کہہ کر زیدی نے حسن کی عارضیت اور وفا کی ابدیت کو ایک مختصر مگر بلیغ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ حسن کے ساتھ دل بہلتا ہے، مگر وفا کے ساتھ زندگی بسر ہوتی ہے۔ حسن نظروں کو لبھاتا ہے، وفا روح کو قرار دیتی ہے۔ حسن محفل کی زینت ہے، وفا تنہائی کی رفیق۔
کلاسیکی ادب میں بھی ہمیشہ وفا کو حسن پر ترجیح دی گئی ہے۔ لیلیٰ و مجنوں کی کہانی ہو، یا ہیر رانجھا کا قصہ، ان سب میں وفا وہ کسوٹی ہے جس پر عشق کو پرکھا جاتا ہے۔ حسن وقتی کشش رکھتا ہے، مگر وفا وہ ستون ہے جس پر سچے رشتے قائم رہتے ہیں۔
زندگی میں اگرچہ حسن کی جھلک دل لبھاتی ہے، مگر جس دل میں وفا ہو، وہی دل دوسروں کے دل میں گھر کر پاتا ہے۔ آخرکار، وقت حسن کو مٹا دیتا ہے، مگر وفا کو امر کر دیتا ہے۔ سو، جو وفا کے سنگ جیتے ہیں، وہی اصل حسن کے وارث ہوتے ہیں۔
یوں زیدی کا کہنا بجا ہے:
"حسن نظارہ ہے، وفا حقیقت؛ نظارے بیت جاتے ہیں، حقیقتیں باقی رہتی ہیں۔"

0
5