دل کی باتیں، آنکھ کی ہر خامشی میں چھپ گئیں |
لفظ کہنے کی تمنا، خواہشی میں چھپ گئیں |
خواب سب تعبیر کے رستے میں بکھرے رہ گئے |
جو دعائیں ہم نے مانگیں، مصلحت کی روشنی میں چھپ گئیں |
کون جانے کس جگہ پر لمس کی گرمی ملے |
بات جو دل سے نکلتی تھی، وہی بے مہر سی میں چھپ گئیں |
اک نظر نے جو دکھایا، وہ حقیقت بن گئی |
اور جو منظر نہ دیکھا، وہ کمی میں چھپ گئیں |
ہم نے زیدی جو بھی لکھا، درد میں لپٹا رہا |
بات کہنے کی جو صورت تھی، وہی بے نام سی میں چھپ گئیں |
معلومات